India
سوال # 156934
Published on: Dec 27, 2017
جواب # 156934
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:253-292/sd=4/1439
(۱) آپ کے لیے پڑوسی کو قرض دے کر اُس کا مکان رہن پر رکھنا جائز ہے ۔
(۲) رہن پر رکھے ہوئے مکان کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔
(۳) رہن کے مکان کو کرایہ پر دینا بھی جائز نہیں ہے ۔ (لا انتفاع بہ مطلقا) لا باستخدام، ولا سکنی ولا لبس ولا إجارة ولا إعارة۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۴۸۲/۶، ط: دار الفکر، بیروت ) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہاں نہ کوئی اسلامی شریعت ہے نہ بیت المال کا نظام۔ آج کے دور میں اگر اکسیڈنٹ میں گھر کا کوئی کمانے والا فرد مرجائے تو اس کے بیوی بچوں کو بیت المال سے کوئی وظیفہ یا کوئی مالی امدادنہیں ملتی۔ ایسی صورت میں اگر کوئی بیمہ یا میڈیکل انشورنس کراتا ہے تب بھی یہ جائز نہیں؟ بے شک ہمارا ایمان بہت کمزور ہے ، کیا اس صورت میں ہم میڈیکل بیمہ کرواسکتے ہیں؟
میں ایک عام سوال کرنا چاہتی ہوں کہ کیا جو بینک لون دیتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ شرعی اصولوں کی پابندی کرتے ہیں ، تو کیا وہ صحیح معنوں میں شریعت کی اتباع کرتے ہیں ؟ کیا یہ جائز ہے کہ ہم گھر خریدنے کے لیے ان سے قرض لیں؟ کیوں کہ بلا قرض لیے ہوئے یہاں کوئی شخص گھر نہیں خریدسکتا۔ آپ کے جواب کا شدت سے انتظار رہے گا۔ ہمارے امام صاحب نے ہمیں کچھ بینکوں کے متعلق رہ نمائی کی ہے۔
پاکستان میں دبئی اسلامک بینک کا افتتاح ہوا ہے۔ میں آپ سے اسلامک بینکنگ ملازمت کے سلسلے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا میں کرسکتا ہوں؟خصوصاً دبئی اسلامک بینک، میزان بینک، مشرق بینک میں۔ براہ کرم تفصیل سے جواب دیں ، شکر گزار ہوں گا۔
میری اپنی ٹریویل ایجنسی ہے، سوئے اتفاق ایک مرتبہ ایساہواکہ میں نے ایک پیسنجر کو ٹکٹ بکنگ کے وقت کے بارے میں غلط اطلاع دیدی۔ میں نے اس سے کہا کہ دن کو ٹرین کا وقت 2:40 ہے ،جب کہ صحیح وقت رات کو 2:40 تھا ۔ بالاخر ٹرین چھوٹ گئی اور سفر نہیں ہو پایا ۔ یہ میر ی غلطی ہے ،لیکن پیسنجر کو ٹکٹ پر درج وقت کو دیکھ لینا چاہئے ۔ بر اہ کرم، مجھے بتائیں کہ اس کا کفارہ کیا ہوگا؟
لائف انشورنس پالیسی حرام ہے یا نہیں؟ شیئرز میں پیسہ لگانا حرام ہے یا نہیں؟
ایک بینک ہے، وہ لوگوں کو قرض دیتا ہے۔ اگر بندے نے رقم ٹائم پر نہ ادا کی تو اس کو فائن (جرمانہ) دینا ہوگا جس کی مقدار بھی اسی وقت طے ہوجاتی ہے اور وہ جرمانہ اس ہاسپٹل کے اکاؤنٹ میں جائے گا۔ بینک والے کہتے ہیں کہ یہ جرمانہ سود نہیں ہے اور ہم بینک والے اس میں سے کچھ بھی نہیں لیتے۔ کیا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ کیا ایسے بینک سے لون لینا ٹھیک ہے؟
میں ایک پرائیویٹ سوفٹ ویر بنانے والی کمپنی میں ملازم ہوں۔ اب تک ہمیں طبی اخراجات کے لیے زیادہ سے زیادہ 30000/-سالانہ روپئے ملتے تھے۔ مزید وضاحت کے لیے ایک مثال دے رہا ہوں۔ ۲۰۰۶ء میں میرے علاج کا کل صرفہ 20000/-ہوا، اسی لیے میں نے ۲۰۰۶ء میں تیس ہزار میں سے صرف بیس ہزار کی رقم ہی لی۔ لیکن اگر میرا خرچ تیس ہزارسے متجاوز ہوجائے توبھی کمپنی صرف تیس ہزار ہی دے گی اور مزید رقم مجھے خود ادا کرنی ہوگی۔