• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 154190

    عنوان: کیا بیٹی داماد کی دعوت نہ کرنے کا عمل قطع تعلق پر دلالت کرتا ہے

    سوال: خالدہ کی شادی 2001 میں محسن کے ساتھ ہوئی تھی۔ ازدواجی زندگی خوشگوار گزر رہی تھی۔ اچانک 2015 میں خالدہ نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ محسن سے طلاق لینا چاہتی ہے ۔ جب والدین نے سبب معلوم کیا تو خالدہ نے بتایا کہ اس کا شوہر نامرد ہے اور اس کی جنسی خواہشات کی تکمیل نہیں کر پاتا۔ خالدہ کے والدین نے اس سلسلے میں محسن سے بات کی تو انہوں نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ خالدہ کا فیروز نامی شخص سے معاشقہ چل رہا ہے ۔ خالدہ اسی لئے اس پر بے بنیاد الزام لگا رہی ہے ۔ جب خالدہ کے والدین نے اس سلسلے میں خالدہ سے بات کی، تو اس نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔بہرحال خالدہ اور محسن دونوں کے اہل خانہ نے انہیں سمجھانے کی ، لیکن کامیاب نہیں ہوئے اور 2016 میں خالدہ اپنے والد کے گھر آ گئی اور کہہ دیا کہ آپ طلاق دلوائیں یا نہیں ،لیکن وہ اب کبھی اپنی سسرال نہیں جائے گی۔ مجبوراً خالدہ کے والدین نے محسن سے طلاق کے سلسلہ میں بات کی اور انہوں نے خالدہ کو طلاق دے دی۔ عدت کے ایام گزرنے کے بعد خالدہ کے مختلف پیام آنے شروع ہو گئے ، ابھی ان کے والدین ان پیامات پر غور کر ہی رہے تھے کہ فیروزبقول محسن، خالدہ کا عاشق کا بھی پیام آیا۔ والدین کو یہ شخص پسند نہیں تھا، اس لئے انہوں نے اسے منع کر دیا، لیکن خالدہ، فیروز سے ہی نکاح کی ضد کرنے لگی۔ خالدہ کے والدین نے فیروز کے ساتھ نکاح کرنے سے سختی سے منع کر دیا اور کہا کہ اگر تم اپنی مرضی سے نکاح کرنا چاہتی ہو، تو ہمارے گھر سے چلی جا و اور آئندہ کبھی واپس مت آنا، ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ تب خالدہ اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر چلی گئی اور اپنے رشتے کے ماموں، جو فیروز کے دوست ہیں، کی مدد سے فیروز سے نکاح کر لیا۔ اس وقت سے خالدہ اور اس کے والدین میں کوئی تعلق قائم نہیں ہے ۔ 2017 کے رمضان سے دو دن قبل خالدہ اپنے والد کے گھر آئی اور کہا کہ میں نے آپ کا دل دکھایا ہے ، آپ مجھے معاف کر دیجئے ، میں یہ نہیں کہتی کہ آپ مجھ سے ملیں جلیں، میرے گھر آئیں، لیکن بس آپ مجھے معاف کر دیجئے ۔ جس پر ان کے والد نے کہا کہ ہم نے تمہیں معاف کر دیا، لیکن تم آئندہ ہمارے گھر مت آنا، ہم تم سے ملنا نہیں چاہتے ۔ جس پر خالدہ واپس چلی گئی۔ اب کچھ دن سے خالدہ کے رشتے کے ماموں خالدہ کے والدین پر یہ دباو بنا رہے ہیں کہ آپ اپنی بیٹی سے میل کریں، ورنہ آپ جنت میں نہیں جائیں گے ، کیونکہ قطع تعلق جائز نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیٹی کو معاف کر دینا کافی نہیں ہے ، بلکہ اولاد کے جو حقوق ہیں، وہ ادا کیجئے ، بیٹی کو گھر بلائیے ، اس کے سسرال والوں کی دعوت کیجئے ، بصورت دیگر ہم تو یہی سمجھیں گے کہ آپ دل میں کینہ رکھے ہوئے ہیں،اور کینہ رکھنے والے کی بخشش نہیں ہو گی۔ خالدہ کے والدین کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی بیٹی کی غلطی کو معاف کر دیا، لیکن ہمارا دل اس سے ملنے کو نہیں چاہتا، خاص طور سے اس کے شوہر کو کسی بھی حالت میں ہم اپنے گھر میں بلانا نہیں چاہتے ۔ دوسری جانب فیروز کا کہنا ہے کہ میں نے خالدہ سے نکاح کیا ہے ، کوئی گناہ نہیں کیا؟ مجھ سے دور رہ کر خالدہ کے والدین میری بے عزتی کر رہے ہیں، جس کیلئے میں انہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ برائے کرم اس سلسلہ میں چند امور پر اسلام کی روشنی میں مشورہ دینے کی زحمت کریں؛ 1۔ کیا خالدہ کے والدین کی اپنی بیٹی سے ناراضگی جائز ہے ؟ 2۔ کیا یہ ضروری ہے کہ خالدہ کے والدین اپنی بیٹی اور داماد کو گھر بلائیں، کیا صرف معاف کر دینا کافی نہیں ہے ؟ 3۔ کیا بیٹی داماد کی دعوت نہ کرنے کا عمل قطع تعلق پر دلالت کرتا ہے اور اس کیلئے قیامت کے دن والدین سے بازپرس ہو گی؟ 4۔ اگر والدین کا اپنی بیٹی سے تعلق نہ ہو، تب اس کے شوہر سے نہ ملنا کیا کوئی گناہ ہے اور اس کیلئے کسی معافی کی ضرورت ہے ؟

    جواب نمبر: 154190

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1479-1434/L=12/1438

    (۱) خالدہ نے جب بلاوجہ بلکہ غلط الزام لگا کر اپنے شوہر سے طلاق لی تھی اس وقت تک والدین کی ناراضگی درست تھی؛لیکن جب خالدہ نے دوسری شادی کرلی اور اپنے سابقہ حرکت پر افسوس کرتے ہوئے اس نے اپنے والدین سے معافی بھی مانگ لی تو اب والدین کا ناراض رہنا بجا نہیں ہے ان کو چاہیے کہ معاف کرکے اپنے ساتھ ملا لیں۔(۲) معاف کردینا کافی ہے ؛البتہ گاہے گاہے بات بھی کرلینا چاہیے اور وقتاً فوقتاً گھر بلالینا بہترہے،قطع تعلق وغیرہ اسی وقت تک ہے جب تک انسان غلطی پرہو ۔(۳) یہ قطع تعلق پر دال نہیں ہے ؛تاہم دوسروں کو دعوت دینے کی صورت میں اپنی لڑکی کو دعوت نہ دینا ہرگز مناسب نہیں ہے۔(۴)ملاقات نہ کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے؛البتہ مواجہہ کی صورت میں منھ پھیرلینا درست نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند