معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 149145
جواب نمبر: 149145
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 470-715/N=7/1438
(۱، ۲): حقوق طبع یا حقوق ایجاد واختراع کے سلسلہ میں علما کا اختلاف ہے؛اکثر اکابر علمائے دیوبند(جیسے: حضرت مولانا رشید احمدگنگوہیرحمہ اللہ ، حضرت مولانا تھانویرحمہ اللہ ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبرحمہ اللہ ، حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیرحمہ اللہ اور حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانویرحمہ اللہ ، وغیرہ) ان حقوق کو شریعت کی نظر میں غیر معتبر قرار دیتے ہیں، یعنی: اگر کوئی شخص کسی کتاب کا مثل تیار کرتا ہے تو اس میں شرعاً کوئی گناہ نہیں۔ اور دور حاضر میں بہت سے علماء ان حقوق کو شریعت کی نظر میں بھی معتبر قرار دیتے ہیں؛ لیکن ذاتی ضرورت کے لیے یا کسی کوبلا عوض ہبہ کرنے کے لیے سبھی علماء اس کا مثل تیار کرنے کی اجازت دیتے ہیں(دیکھئے: فقہ البیوع، ص ۲۸۶، مطبوعہ: مکتبہ معارف القرآن کراچی )۔ اور کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ وغیرہ میں چلنے والے پروگرامس کے اصل سوفٹ ویئر بہت مہنگے ہوتے ہیں ، ہر شخص اصل سوفٹ ویئر نہیں خریدسکتا۔ اور جو لوگ اصل سوفٹ ویئر کا مثل تیار کرکے فروخت کرتے ہیں، ان پر عملی طور پر کمپنی کی طرف سے کوئی ایکشن بھی نہیں کیا جاتا جو کسی درجے میں حکماً اجازت کی دلیل ہے ، نیز اصل سوفٹ ویئر اور اس کی نقل میں کارکردگی کے اعتبار سے بہت فرق ہوتا ہے اور عام طور پر اصل سوفٹ ویئر کی گارنٹی بھی ہوتی ہے؛ اس لیے کاپی شدہ سوفٹ ویئرس کا ذاتی استعمال یا کاروبار کے لیے خریدنا یا انھیں فروخت کرنا شرعاً جائز ہے اور کاروبار کی صورت میں حاصل ہونے والی آمدنی بھی جائز ہوگی، اس پر حرام ہونے کا حکم نہ ہوگا۔اور اس مسئلہ میں غریب اور مالدار ممالک سب کا حکم یکساں ہے۔
(۳):دینی ادارے یا اہل علم حضرات جو دوسرے ملک کی چھپی ہوئی بعض اہم کتابیں ذاتی ضرورت کے لیے یا مدرسہ میں عام اساتذہ وطلبہ کے لیے فوٹو کاپی کراتے ہیں اور ان سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں تمام علماء کے نزدیک شرعاً کچھ حرج نہیں ہے، یہ بلا شبہ جائز ودرست ہے ۔
أما إذا صورہ لاستعمالہ الشخصي أو لیھبہ إلی بعض أصدقائہ بدون عوض فإن ذلک لیس من التعدي علی حق الابتکار فما توغل فیہ نشرة الکتب ومنتجو برامج الکمبیوتر من منع الناس من تصویر الکتاب أو قرص الکمبیوتر أو جزء منہ لاستفادة شخصیة ولیس للتجارة فإنہ لا مبرر لہ أصلاً (فقہ البیوع، ص ۲۸۶، ط: مکتبة معارف القرآن کراتشي)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند