• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 149145

    عنوان: حقوق طبع یا حقوق ایجاد واختراع كے بارے میں

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ آج کل بہت سے لوگ مختلف قسم کے سوفٹ وئیر ( Software ]اصل کمپنی سے نہیں خرید تے کیونکہ وہ بہت مہنگے ہوا کرتی ہے بلکہ اسے Copy یا Crack کرکے اپنے استعمال میں لاتے ہیں، اگرچہ کمپنی کی طرف سے اس طرح Copyیا Crack کرنے پر ممانعت جاری ہے جیسے ہم اپنی کمپنی میںWindows 7 کا CD Install کرتے ہیں، لیکن میرے علم کے مطابق بنگلہ دیش کا دینی اور غیر دینی کوئی بھی ادارہ Microsoft Company سے وہ Software نہیں خرید تے مہنگی ہونے کی وجہ سے بلکہ بازار سے وہ Copy شدہ CDصرف 50 ٹا کا سے خرید کر Installکر لیتے ہیں پھر ان Copy کرنے والے میں سے بعض تو خود Copy کردہ CD فروخت کرکے پیسہ کماتے ہیں اور بعض Copy کردہ CD خرید کر یا تو اور سے Copy کرکے اس سے ذریعئہ معاش کا انتظام کر رہے ہیں جیسے Adobe Photoshop اور Adobe illustrator CS6 software کے ذریعہ logo flayer ,business وغیرہ تیار کر کے بطور Freelancer [خود سے کاروبار کرنے والا)پیسہ کما رہے ہیں، اب دریافت طلب امور یہ ہے کہ؛ (۱) اس جیسے software (جس کی Copy یا Crackکرنا اصل Company کی طرف سے ممنوع ہے ) کو بطور تجارت فروخت کرنا اور اسے خریدنا یا وہ Copy شدہ software سے اپنے لیے ذریعئہ معاش کا انتظام کرنا (جیسے اس software سے logo وغیرہ تیار کرنا اس سے پیسہ کمانا) جائز ہے یا نہیں ؟ اور دونوں صورت میں کمائی ہوئی پیسہ کا کیا حکم ہے ؟ اور بازار سے اس Copy شدہ software خرید نے کا کیا حکم ہے ؟ (۲) اور ملک غریب ہونے کی وجہ سے یا تو original software خرید نے کی قدرت رکھنے یا نہ رکھنے کی وجہ سے کیا حکم میں کوئی فرق آ ئے گا؟ دراں حال یہ کہ software company کو معلوم ہے کہ غریب ملکوں کے لوگ اسے Copy یا Crack کر کے استعمال کرتے ہیں پھر بھی companyکسی actionمیں نہیں جاتی۔ (۳) اسی طرح بیرونی کتاب کو photocopyکرانا کیسا ہے ؟ جس کے حقوق الطبع محفوظ ہیں اور photocopyبھی ممنوع ہے ۔ اکثر دینی ادارے ندرت یا تو مہنگی ہونے کی وجہ سے بہت سی کتاب photocopyکرکے اس سے استفادہ کرتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے ؟ سوال کے تمام شق کے حل کی سخت ضرورت ہے ، اور جواب مدلل ہونا مطلوب ہے ۔

    جواب نمبر: 149145

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 470-715/N=7/1438

    (۱، ۲): حقوق طبع یا حقوق ایجاد واختراع کے سلسلہ میں علما کا اختلاف ہے؛اکثر اکابر علمائے دیوبند(جیسے: حضرت مولانا رشید احمدگنگوہیرحمہ اللہ ، حضرت مولانا تھانویرحمہ اللہ ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبرحمہ اللہ ، حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیرحمہ اللہ  اور حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانویرحمہ اللہ ، وغیرہ) ان حقوق کو شریعت کی نظر میں غیر معتبر قرار دیتے ہیں، یعنی: اگر کوئی شخص کسی کتاب کا مثل تیار کرتا ہے تو اس میں شرعاً کوئی گناہ نہیں۔ اور دور حاضر میں بہت سے علماء ان حقوق کو شریعت کی نظر میں بھی معتبر قرار دیتے ہیں؛ لیکن ذاتی ضرورت کے لیے یا کسی کوبلا عوض ہبہ کرنے کے لیے سبھی علماء اس کا مثل تیار کرنے کی اجازت دیتے ہیں(دیکھئے: فقہ البیوع، ص ۲۸۶، مطبوعہ: مکتبہ معارف القرآن کراچی )۔ اور کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ وغیرہ میں چلنے والے پروگرامس کے اصل سوفٹ ویئر بہت مہنگے ہوتے ہیں ، ہر شخص اصل سوفٹ ویئر نہیں خریدسکتا۔ اور جو لوگ اصل سوفٹ ویئر کا مثل تیار کرکے فروخت کرتے ہیں، ان پر عملی طور پر کمپنی کی طرف سے کوئی ایکشن بھی نہیں کیا جاتا جو کسی درجے میں حکماً اجازت کی دلیل ہے ، نیز اصل سوفٹ ویئر اور اس کی نقل میں کارکردگی کے اعتبار سے بہت فرق ہوتا ہے اور عام طور پر اصل سوفٹ ویئر کی گارنٹی بھی ہوتی ہے؛ اس لیے کاپی شدہ سوفٹ ویئرس کا ذاتی استعمال یا کاروبار کے لیے خریدنا یا انھیں فروخت کرنا شرعاً جائز ہے اور کاروبار کی صورت میں حاصل ہونے والی آمدنی بھی جائز ہوگی، اس پر حرام ہونے کا حکم نہ ہوگا۔اور اس مسئلہ میں غریب اور مالدار ممالک سب کا حکم یکساں ہے۔

    (۳):دینی ادارے یا اہل علم حضرات جو دوسرے ملک کی چھپی ہوئی بعض اہم کتابیں ذاتی ضرورت کے لیے یا مدرسہ میں عام اساتذہ وطلبہ کے لیے فوٹو کاپی کراتے ہیں اور ان سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں تمام علماء کے نزدیک شرعاً کچھ حرج نہیں ہے، یہ بلا شبہ جائز ودرست ہے ۔

    أما إذا صورہ لاستعمالہ الشخصي أو لیھبہ إلی بعض أصدقائہ بدون عوض فإن ذلک لیس من التعدي علی حق الابتکار فما توغل فیہ نشرة الکتب ومنتجو برامج الکمبیوتر من منع الناس من تصویر الکتاب أو قرص الکمبیوتر أو جزء منہ لاستفادة شخصیة ولیس للتجارة فإنہ لا مبرر لہ أصلاً (فقہ البیوع، ص ۲۸۶، ط: مکتبة معارف القرآن کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند