• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 148941

    عنوان: اپنی بیوی پر غصے میں تہمت لگانا

    سوال: میری شادی کو ابھی ۳ مہینے ہوئے ہیں ، میرا اور میری بیگم کاخاندانی پس منظر بالکل مختلف تھا، میرے گھر میں کسی حد تک دینی پردہ اور خواتین کے گھر سے بلا ضرورت باہر آنے جانے پر دھیان رکھا جاتا تھا، جب کہ میری بیگم کے گھر کا ماحو ل بالکل مختلف تھا، وہ بلاضرورت بھی گھر سے اکیلے باہر اور دوسرے شہر تک چلی جایا کرتی تھیں، اب شادی کے بعد وہ بضد تھیں کہ انہیں نوکری کرنی ہے جب کہ نان نفقے کی ساری ذمہ داری میں سنبھال رہا تھا، اس کے ساتھ شادی کے ابتدائی دنوں میں مجھے کچھ جزئی نامردی کا سامنا تھا جس سے ہمارے درمیاں مباشرت نہ ہو سکی تھی، لیکن اس کے علاج کے لیے ڈاکٹر نے مجھے ۱ یک مہینے کا وقت دیا، جو کہ میں اب الحمداللہ بہتر ہوں کافی، پر شادی کے فوراً بعد ہی بیگم نے سب میں میرے نامرد ہونے کا شور مچا دیا اور نوکری کی بلاضرورت ضد شروع کردی جس پر میں نے غصے میں آکر اُن پر تہمت اور برے الضام لگائے ، جس پر ابھی میں شرمندہ ہوں ، اور صلاح کاخواہاں ہوں، پر بیگم کے گھر والے اس پر راضی نہیں ہیں، اور بیگم کا مزاج بھی ایسا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بالکل تبدیل کرنے پر راضی نہیں ہیں، آپ سے جاننا چاہ رہا تھا کہ کیا ایسی عورت کے ساتھ زندگی گزارنا مناسب رہے گا ؟ اور جو میں نے تہمت اور الزام لگائے اس پر ان سے معافی بھی مانگی ہے ، اس کے متعلق دین میں کیا حکم ہے ؟

    جواب نمبر: 148941

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 438-350/D=5/1438

    برے الزام اور تہمت لگانے کی بات آپ نے بہت غلط کی اس کی تلافی کرکے بیوی کا دل صاف کرنا ضروری ہے، دونوں کے مزاج میں ابتداءً پوری موافقت نہ ہو تو بھی ناجائز اور نامناسب امور سے بچ کر جائز اور مباح امور میں ایک دوسرے کے ساتھ موافقت پیدا کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔

    لہٰذا نان ونفقہ کی ذمہ داری جب شوہر اٹھانے کے لیے تیار ہے تو پھر بیوی کا ملازمت کے لیے اصرار اور ضد کرنا جائز نہیں، شوہر کے لیے بیوی کو ملازمت کرنے سے روکنے کا حق حاصل ہے، جس کی تابعداری بیوی پر ضروری ہوگی۔

    نیز ملازمت کرنے میں اور بھی خرابیاں ہیں جو کسی مسلمان خاتون کے لیے مناسب نہیں ہیں، مثلاً بسا اوقات غیر مردوں سے بات چیت اور اختلاط کی نوبت آنا، بلاشرعی ضرورت کے گھر سے روزانہ باہر جانا، شوہر کے حقوق اور امور خانہ داری میں کوتاہی ہونا، وغیرہ۔

    رہا یہ سوال کہ آئندہ اس کے ساتھ زندکی گزارنا مناسب ہوگا یا نہیں؟ تو اس کا فیصلہ ہمدرد اور بہی خواہ افراد کے مشورہ سے آپ دونوں خود ہی کرسکتے ہیں، ہمدرد اور بہی خواہ افراد آپ دونوں کے مکمل حالات ومزاج سے واقف ہوں۔

    جو آپ دونوں میں موافقت پیدا کرنے کی ابتدائی کوشش کرچکے ہوں، اگر اس طرح کی کوشش کے باوجود ایک ساتھ زندگی گذارنے کے امکانات نظر نہ آرہے ہوں اس وقت تعلقات ختم کرنے پر غور کرسکتے ہیں اوراگر طلاق دینے کی نوبت آئے تو بہت سوچ سمجھ کر آئندہ کے معاملات طے کرکے طلاق کا اقدام کریں گے نیز ایک طلاق بائنہ سے زائد تین طلاق ہرگز نہ دیں اور دارالعلوم دیوبند کے ویب سائٹ پر ”طلاق ایک مستحکم قانون“ نامی رسالہ کا مطالعہ کرلیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند