• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 64278

    عنوان: قسم کے لیے قرآن اٹھوانا

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ اگر بیوی نے اپنے شوہر کوکسی کزن (رشتہ دار لڑکی) سے بات کرنے سے منع کرے اور اس بات پر قرآن اٹھوائے کہ آ پ اپنی کزن سے بات نہیں کریں گے تو اس قسم کی کیا حقیقت ہے؟ اور کیا اگر اس گزن سے بات یا ملاقات ہوجائے تو اس قسم کا کیا کفارہ ہے؟

    جواب نمبر: 64278

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 318-318/Sd=5/1437 اگر آپ نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر صرف یہ جملہ کہا تھا کہ ” میں دن میں تین یا چار مرتبہ صرف دس منٹ فیس بک استعال کروں گا “ آپ نے قسم کا لفظ نہیں بولا تھا، یعنی اس طرح نہیں کہا تھا کہ” میں قرآن کی قسم کھاتا ہوں“، تو ایسی صورت میں شرعا قسم منعقد ہی نہیں ہوئی؛ لہذ صورت مسئولہ میں اگرچہ آپ نے دن میں چار مرتبہ دس منٹ سے زیادہ یا پانچ مرتبہ فیس بک استعمال کیا ہو، تب بھی قسم کا کفارہ واجب نہیں ہوگا؛ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس وقت فیس بک کا استعمال کثرت سے غلط چیزوں کے لیے ہورہا ہے، اس کے ذریعے آدمی بہت سی خلاف شرع چیزوں کا آسانی سے ارتکاب کرسکتا ہے، اس لیے بلا ضرورت فیس بک کے استعمال سے بچنے ہی میں عافیت ہے، جیسا کہ آپ کو بھی اس کا احساس ہے، اللہ تعالی مدد فرمائے۔ قال في الہندیة: وأما رکن الیمین باللّٰہ، فذکر اسم اللّٰہ أو صفتہ۔۔۔۔۔ ( الفتاوی الہندیة: ۲/۵۱، کتاب الأیمان، الباب الأول ) وفي امداد الأحکام: سوال: اگر کسے قرآن شریف بر سر نہادہ خبرے کند، ولفظ قسم بقرآن شریف یا بخدا نگوید، ایں قسم گفتہ شود شرعا یا نہ؟ الجواب: محض قرآن سر پر رکھنا جب تک لفظ قسم زبان سے نہ کہے، قسم نہیں۔ فقط واللہ اعلم۔ ( امداد الأحکام:۳/۴۰، کتاب الأیمان، بعنوان: الفاظ قسم کے بغیر قرآن مجید سر پر رکھنا قسم نہیں، ط: دار العلوم، کراچی ، وکذا فی فتاوی محمودیہ: ۱۴/۴۲، بعنوان:قرآن شریف ہاتھ میں لے کر بات کہنا قسم نہیں، ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند