• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 174617

    عنوان: کلما کی قسم کہنے سے قسم کا حکم اور حلال کو حرام کرنے کا حکم ؟

    سوال: حضرت مفتیان کرام عرض ہیکہ ایک لڑکے نے لڑکی کے ساتھ اس طرح قسم کھائی"کُلَّما کی قسم میری شادی تجھ سے ہوگی اگر میں تیرے علاوہ کسی اور سے شادی کروں تو وہ مجھ پر حرام ہے، اسی طرح لڑکی نے کہا کہ "کُلَّما کی قسم اگر میں تیرے علاوہ کسی اور سے شادی کروں تو وہ مجھ پر حرام ہے اور میرا بھائی ہے" تو مذکورہ صورت میں کیا (۱) اس طرح قسم کھانے سے کلما کی قسم کا تحقق ہوجاتا ہے ؟ (۲) اور ان دونوں کے بارے میں اب شرعی حکم کیا ہے ؟ (۳) کیا ان دونوں کا ایک ساتھ ہی نکاح ہونا ضروری ہے ؟ یا کسی اور سے بھی نکاح کر سکتے ہیں ؟ جواب عنایت فرمائیں ذرہ نوازی ہوگی۔

    جواب نمبر: 174617

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:230-207/N=4/1441

    (۱- ۳): ” کلما کی قسم میری شادی تجھ سے ہوگی“ ، یہ شریعت میں قسم کے الفاظ نہیں ہیں، یعنی: اِن الفاظ سے قسم نہیں ہوتی(فتاوی محمودیہ، ۱۳:۹۰، سوال: ۶۳۲۶، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل)؛ البتہ اس کے بعد لڑکا اور لڑکی نے جو الفاظ کہے ہیں ، یعنی: ” اگر میں تیرے علاوہ کسی اور سے شادی کروں تو وہ مجھ پر حرام ہے“ تو یہ لڑکے کی طرف سے طلاق کے الفاظ ہیں؛ لہٰذا اگر وہ سوال میں مذکو ر لڑکی کے علاوہ کسی اور(لڑکی یا عورت) سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی اُس (لڑکی یا عورت) پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی اور پھر یہ تعلیق ختم ہوجائے گی، پھر اگر اُسی سے یا کسی اور لڑکی یا عورت سے نکاح کرے گا تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور لڑکی کی طرف سے یہ قسم کے الفاظ ہیں؛ لہٰذا اگر وہ سوال میں مذکورلڑکے کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرے گی تو نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، یعنی: نکاح نہیں ٹوٹے گا؛ البتہ اگر اس سے میاں بیوی والا مخصوص تعلق قائم کرے گی یا وہ زبردستی قائم کرے گا تو لڑکی پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا، یعنی: وہ دو وقت پیٹ بھر دس مسکینوں کو کھانا کھلائے گی یا ستر چھپانے کے بہ قدر انھیں کپڑا دے گی یا ہر ایک کو صدقہ فطر کے بہ قدر غلہ کی قیمت دے گی۔ اور اگر وہ بہت غریب وتنگ دست ہو تو لگاتار تین روزے رکھے گی۔

    فی البزازیة من کتاب ألفاظ الکفر: إنہ قد اشتھر في رساتیق شروان أنہ من قال: جعلت کلما أو علي کلما أنہ طلاق ثلاث معلق، وھذا باطل ومن ھذیانات العوام (رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الصریح، ۴۵۷۴:، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولفظ البزازیة ھکذا:واشتھر أیضاً -في رساتیق شروان- أنہ إذا قال: جعلت کلما أو علي کلما انہ طلاق ثلاث معلق، وھذا أیضاً باطل و ھذیانات العوام لا نھایة لہ (الفتاوی البزازیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، ۶:۳۴۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، وفیھا کلھا تنحل أي: تبطل الیمین ببطلاق التعلیق إذا وجد الشرط مرة إلا في کلما فإنہ ینحل بعد الثلاث لاقتضائھا عموم الأفعال کاقتضاء کل عموم الأسماء فلا یقع إن نکحھا بعد زوج آخر إلا إذا دخلت کلما علی التزوج، نحو کلما تزوجت فأنت کذا لدخولھا علی سبب الملک وھو غیر متناہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتابالطلاق، باب التعلیق، ۴: ۶۰۴- ۶۰۶)، وکفارتہ تحریر رقبة أو طعام عشرة مساکین أو کسوتھم بما یستر عامة البدن…وإن عجز عنھا وقت الأداء صام عن ثلاثة أیام ولاء (تنویر الأبصار مع الدر والرد ، کتاب الأیمان،۵: ۵۰۲- ۵۰۵)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند