• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 7044

    عنوان:

    فتوی نمبر 4726 کے حوالے سے عرض ہے کہ آپ نے مزید تفصیلات پوچھی ہیں تو مختصرا عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا تعلق ایک معزز اور پڑھے لکھے کاروباری گھرانے سے ہے ۔میری شادی 1985میں ہوئی۔ کراچی کے حالات کی وجہ سے 1989میں میرے والد نے میرے گھر والوں کو لاہور منتقل کروادیا جہاں ہم ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ 1997میں میری بیوی کے والدین بھی لاہور آگئے۔ 13اگست 2001کو کلام پاکستان کے مقام پر میرے ساتھ ایک حادثہ ہوا، میں ایک بم بلاسٹ میں زخمی ہوگیا، اور مجھ پر بدقسمتی کا ایک دور شروع ہوگیا۔۔۔۔؟؟؟

    سوال:

    فتوی نمبر 4726 کے حوالے سے عرض ہے کہ آپ نے مزید تفصیلات پوچھی ہیں تو مختصرا عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا تعلق ایک معزز اور پڑھے لکھے کاروباری گھرانے سے ہے ۔میری شادی 1985میں ہوئی۔ کراچی کے حالات کی وجہ سے 1989میں میرے والد نے میرے گھر والوں کو لاہور منتقل کروادیا جہاں ہم ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ 1997میں میری بیوی کے والدین بھی لاہور آگئے۔ 13اگست 2001کو کلام پاکستان کے مقام پر میرے ساتھ ایک حادثہ ہوا، میں ایک بم بلاسٹ میں زخمی ہوگیا، اور مجھ پر بدقسمتی کا ایک دور شروع ہوگیا۔ اس حادثہ میں میں اپنی ایک آنکھ سے ہاتھ دھو بیٹھا، اسپتال میں تین ماہ تک بستر سے لگا رہا۔ میرے کاروبار بھی تباہ ہوگئے اسپتال سے آکر میں نے ہمت نہیں ہاری، اور نئے سرے سے کاروبار جمانے کی کوشش شروع کردی، پر میرے سسرال والے فکر مند ہوگئے کہ یہ کیسے بچے گا اور کیسے دوبارہ اپنے پاؤں جمائے گا۔ چنانچہ انھوں نے میرے اوپر میری بیوی کے ذریعہ دباؤ ڈالنا شروع کیا اور ہمیں کراچی واپس بھجوادیا۔ میں اس وقت ہر لحاظ سے کمزور تھا جسمانی، مالی اور پھر ذہنی لحاظ سے اس حادثے اور بعد کی مشکلات میں صرف ایک خاموش لاش سی بن گیا تھا۔ کراچی واپس آکر میریے والد نے مجھے اپنے کاروبار میں شرکت کرنے کو کہا پر میں نے مناسب نہیں سمجھا، کیوں کہ میرے بھائی والد صاحب کے ساتھ پہلے کام کررہے تھے اور اس طرح کی شرکت بعد میں بھائیوں میں رنجش کا باعث بن سکتی تھی۔ چنانچہ میں نے دوبارہ خالی ہاتھ جو تھوڑی بہت پونجی بچی تھی اس سے کاروبار کرنے کی کوشش شروع کی۔ میرے پاس سرمایہ نہیں تھا صرف محنت اور وقت تھا تو میں نے دن رات ایک کردیا پر مالی حالت نہیں بدلی۔ میری بیوی کے والدین بھی اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے کے ہیں اور میرے والدین بھی مگر میری غیرت نے گوارہ نہیں کیا کہ میں ان میں سے کسی سے مددمانگوں۔ اس دوران میری بیوی مختصر مالی حالت کی وجہ سے پریشان رہنے لگی۔ اس نے اپنے ماں باپ سے رجوع کیا تو اس کے ماں باپ نے اس کے جیب خرچ کے لیے کچھ رقم باندھ دی، مجھے نہیں معلوم کتنی باندھی ،کیوں کہ میں نے کبھی بھی اس بارے میں اس سے نہیں پوچھا، نہ ہی اس کو مناسب سمجھا۔ اس جیب خرچی بندھنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو خود مختار سمجھنے لگی اور اس کے رویہ میں فرق آنا شروع ہوگیا۔ میں چوں کہ محنت کے باوجود دوبارہ اپنے پاؤں نہیں جما پارہا تھا اور میری غیرت یہ گوارہ نہیں کررہی تھی کہ میں کسی سے کسی قسم کی مدد طلب کروں اس لیے میں چپ ہوگیا۔ یہاں تک کہ میں ناشتہ بھی اپنی دکان میں کرنے لگا اور رات کا کھانا بھی ساتھ لانے لگا، میری بیوی بھی مجھ سے لا تعلق ہونا شروع ہوگئی میرے والدین نے یقینا اس کو سمجھایا ہوگا پر وہ باز نہ آئی۔ اس نے اب اپنے والدین کے گھر واپس جانا شروع کردیا اور گزشتہ چھ سال میں وہ کم از کم پندرہ سے سولہ دفعہ اپنے والدین سے ملنے کراچی سے لاہور چلی جانے لگی۔ مختصرا سال میں تقریبا پانچ ماہ وہ لاہور میں گزارتی ہے۔ میں ابھی بھی کاروباری طورپر کامیاب نہیں ہوں پر مجھ سے جو ہوسکتا تھا وہ میں کرتا تھا۔لیکن چوں کہ وہ اب خرچہ اپنے والدین سے لے رہی تھی تو میری قدر کم ہوتی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ اب وہ اکثر مجھے بتائے بغیر بھی لاہور جانے لگی، بلکہ ایک دفعہ تو اپنے بھائی کے ساتھ حج پر بھی اکیلے چلی گئی۔ میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی پر اس کا استدلال تھا کہ وہ اپنے پیسوں سے جارہی ہے تو میرا حق نہیں کہ میں اس کو منع کروں یا روکوں۔ شاید اس کی یہ بات درست بھی تھی ، آخرمیں ایک برے دور سے گزر رہا ہوں اور ابھی تک اس قابل نہیں ہوا ہوں کہ گھر کا تمام خرچہ خود اٹھاسکوں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ وہ اکیلے حج پر گئی تو اس میں گو کہ میری مرضی شامل نہیں تھی، پر میں نے اس کو روکا بھی نہیں تھا۔ کیوں کہ نان نفقہ مرد کے ذمہ ہوتا ہے اور میں باوجود کوشش کے اس میں کامیاب نہیں ہوں، تو یہ بات میرے ضمیر کو چبھ رہی تھی اسی لیے میں نے یہ سوال کیا تھا۔ میری مالی کمزروی کی وجہ سے وہ خود سر ہوچکی ہے اور میرا کہنا نہیں مانتی ہے۔ میں نے کبھی بھی اس پر کوئی زور زبردستی نہیں کی۔ ہاں دو تین دفعہ غصہ ضرور ہوا تھا اور اونچی آواز میں اس کو ڈانٹا ڈپٹا تھا ۔مگر ہم پڑھے لکھے لوگوں کا المیہ یہی ہے کہ وہ برابر کی آزادی کے لیے کچھ زیادہ قائل ہوجاتی ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ مختصرا لکھ سکوں پر شاید مختصر نہیں رہ سکتا۔ پھر بھی میں نے یہ حالت اس لیے آپ کو لکھی ہے کیوں کہ آپ نے تفصیل طلب کی تھی۔ آپ کے فتوے کا اور رہنمائی کا شکریہ۔ اللہ ہم سب کو دین کی سمجھ دے اور صبر سے اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

    جواب نمبر: 7044

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1590=1399/ ب

     

    غربت و مالداری ہرایک کو پیش آتی رہتی ہے۔ آپ نے سب سے ضروری اور اہم روزانہ کے نان ونفقہ کی ادائیگی میں کوتاہی کی۔ تو بیوی نے اپنے والدین سے نان ونفقہ لینا شروع کردیا پھر بھی آپ کو غیرت نہ آئی، اس پر راضی رہے اسے یا سسرال والوں کو منع نہ کیا۔ حج کے لیے جاتے وقت جب آپ نے روکا نہیں تھا تو پھر شکایت کی ضرورت کیا پیش آئی؟ آپ اسے نان ونفقہ بھی نہیں دیتے۔ مزید اس کو ڈانٹ پلاتے ہیں۔ اور پھر اسے ہی خودسر بتاتے ہیں۔ اس کی خودسری آپ کی مالی کمزوری کی وجہ سے نہیں، بلکہ آپ کی بے توجہی کی وجہ سے ہے۔ یہ تو اس کا ایثار ہے کہ مالی کمزوری کی وجہ سے آپ کی رفاقت نہیں چھوڑی۔ آپ اپنے آپ کو سدھارنے کی کوشش کریں۔ آہستہ آہستہ سارے معاملات صحیح ہوجائیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند