• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 68752

    عنوان: بچپن میں میری خالہ نے مجھے غلطی سے دودھ پلایا تھا اور دیکھ کر ہٹادیا تھا، تو کیا میں ان کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہوں۔

    سوال: بچپن میں میری خالہ نے مجھے غلطی سے دودھ پلایا تھا اور دیکھ کر ہٹادیا تھا، تو کیا میں ان کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہوں۔

    جواب نمبر: 68752

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 935-942/N=10/1437 عورت کے دودھ سے حرمت رضاعت ثابت ہونے کے لیے عورت کا کسی بچے کو اپنا یا دوسرے کا بچہ سمجھ کر دودھ پلانا ضروری نہیں، اگر کسی عورت نے دوسرے کے بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر دودھ پلادیا اور یقین کے ساتھ دودھ کا کوئی معمولی قطرہ بچے کے پیٹ میں پہنچ گیا تو بھی حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر آپ کو آپ کی خالہ نے مدت رضاعت میں دودھ پلایا ، یعنی: آپ کی عمر اس وقت چاند کے حساب سے مکمل دو سال نہیں ہوئی تھی اور دودھ کا کوئی معمولی قطرہ یقین کے ساتھ آپ کے پیٹ میں پہنچ گیا تھا تو اگرچہ آپ کی خالہ نے دیکھ کر آپ کو فوراً ہٹادیا تھا تب بھی آپ کا ان سے رضاعت کا رشتہ قائم ہوگیا اور آپ ان کے رضاعی بیٹے اور وہ آپ کی رضاعی ماں اور ان کی اولاد آپ کی رضاعی بھائی بہن ہوگئی اور شریعت اسلام میں نسبی بہن کی طرح رضاعی بہن بھی حرام ہوتی ہے، پس اس صورت میں خالہ کی بیٹی سے آپ کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ اور اگر آپ کی خالہ نے صرف پستان کی گھنڈی آپ کے منھ میں رکھی تھی اور آپ کے دودھ کھینچنے سے پہلے نکال لی ، یعنی: آپ کے پیٹ میں دودھ کا کوئی قطرہ پہنچنے کا یقین نہیں ہے ، محض شک ہے یا یہ یقین ہے کہ دودھ کا کوئی قطرہ آپ کے پیٹ میں نہیں پہنچا تو آپ کا آپ کی خالہ سے رضاعت کا رشتہ ثابت نہیں ہوا، پس ایسی صورت میں خالہ کی بیٹی سے آپ کا نکاح جائز ہوگا۔ مسئلہ چوں کہ حلال وحرام کا ہے ؛ اس لیے خالہ سے صحیح صورت حال دریافت کرکے اس کے مطابق عمل کیا جائے، وإن أخطأت أو أرادت الخیر الخ (الفتاوی التاتار خانیة ۴: ۳۷۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لأن الموٴثر فی التحریم ھو حصول الغذاء (الموسوعة الفقہیة ۲۲: ۲۴۵)، وإن قل إن علم وصولہ لجوفہ من فمہ أو أنفہ لا غیر فلو التقم الحلمة ولم یدر أدخل اللبن في حلقہ أم لا؟ لم یحرم؛ لأن فی المانع شکا، ولوالجیة (الدر المختار مع رد المحتار ۴: ۳۹۹-۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویثبت حکمہ أي:الرضاع، وھو حل النظر وحرمة المناکحة بقلیلہ ولو قطرة وکثیرہ وھو مذھب جمہور العلماء لإطلاق النص والأحادیث (مجمع الأنھر ۱: ۵۵۱، ۵۵۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، نیز فتاوی محمودیہ (۱۳:۶۱۶- ۶۱۹،سوال:۶۶۹۴- ۶۶۹۷، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل) دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند