• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 341

    عنوان:

    اپنے ساتھ آفس میں کام کرنے والی لڑکی سے شادی کرنا؟

    سوال:

    براہ کرم، جلد جواب دیں گے، میں مکمل کنفیوژن میں مبتلا ہوں۔ میں اسلام کا سختی سے پیروکار ہوں اور سنت پر عمل کرتا ہوں۔ میں ایک سوفٹ ویر کمپنی میں ہوں ، وہاں میرا مختلف لوگوں کے ساتھ سابقہ پڑا۔ میں نے کبھی اپنے آس پاس کی کسی لڑکی کے سلسلے میں سوچا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی کسی سے کسی قسم کا کوئی تعلق رکھا تھا۔ عام طور پر میں عورتوں سے بات کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ لیکن ہماری آفس میں ایک عورت ہے ، وہ بھی مسلمان ہے جس کی وجہ سے اس کی طرف میرا ذہن کچھ متوجہ ہونے لگا۔ میں شادی کرنے کا ارادہ کررہا ہوں۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسی سے کرلوں کہ وہ ابھی غیر شادی شدہ ہے۔ چناں چہ میں نے اس کے متعلق معلومات کرنا شروع کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ میرے آنے سے قبل آفس میں ایک سے اس کی دوستی تھی اور ایک بار ان دونوں کو بری حالت میں پکڑا گیا اور یہ بات انتظامیہ تک پہنچائی گئی۔ اگر چہ یہ زنا ہے اور بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اس کا خیال میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اس نے ماضی میں جو کچھ کیا ہے وہ اس کے مستقبل پر اثر انداز ہوگا؟ پھر میں اس کو کیوں معاف کررہا ہوں اور اس سے تعلق رکھنا چاہتا ہوں؟ کیا میں اس سے شادی کرسکتا ہوں، حالاں کہ مجھے معلوم ہے کہ اس نے ماضی میں کیا کیا ہے؟ مجھے جو اطلاعات ملی ہیں وہ دیگر ساتھیوں سے ملی ہیں جو وہیں کام کرتے ہیں، لیکن ان سب نے ایک جیسی ہی بات بتائی۔ میں نے اس سلسلے میں اُس سے کوئی تصدیق نہیں کی، کیوں کہ میں نے اس سے اب تک بات نہیں کی ہے۔ براہ کرم، اس صورت حال کے متعلق تفصیلی جواب دیں۔ سوفٹ ویر کے میدان میں کام کرنے والوں کے درمیان یہ ایک عام سی بات ہے۔ جزاک اللہ!

    جواب نمبر: 341

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى: 469/ب=460/ب)

     

    شرعاً اس لڑکی سے نکاح میں تو کوئی حرج نہیں ہے، آپ کے لیے اس سے نکاح کرنا جائز ہے، لیکن اس کے بارے میں آپ کو جو معلومات پہنچی ہیں اس کی وجہ سے آپ کے دل میں شبہات اور بدگمانی رہے گی، جو آئندہ تلخی اور رنجش کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ آپ کسی ایسی لڑکی سے شادی کریں جس سے آپ کا دل صاف اور مطمئن ہو، تاکہ آپ کی آئندہ زندگی خوش گوار گزرے، ویسے آپ استخارہ کرلیجیے، اگر اسی سے آپ کا دل مطمئن ہوجائے تو اس سے نکاح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند