معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 167446
جواب نمبر: 167446
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:363-316/N=4/1440
(۱): جب آپ کے تایا کی بیٹی نے (مدت رضاعت میں، یعنی: چاند کے حساب سے ۲/ سال کے اندر اندر )آپ کے کسی بھائی کے ساتھ آپ کی ماں کا دودھ پیا ہے تو وہ آپ کی بھی رضاعی بہن ہے اور آپ کے بھائی کی طرح آپ کا بھی اس سے نکاح جائز نہیں۔
ولا حل بین الرضیعة وولد مرضعتھا أي: التي أرضعتھا الخ (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب الرضاع، ۴:۴۱۰، ۴۱۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وولد مرضعتھا“: أي: من النسب الخ (رد المحتار)۔
(۲): مفتی بہ قول کے مطابق رضاعت کی مدت ( چاند کے حساب سے) صرف ۲/ سال ہے؛ لہٰذا اگر کسی بچی یا بچہ نے ۲/ سال کے بعد کسی عورت کا دودھ پیا تو شریعت کی نظر میں رضاعت کا رشتہ قائم نہ ہوگا۔
في وقت مخصوص ہو حولان ونصف عندہ وحولان فقط عندہما وہو الأصح فتح، وبہ یفتی کما في تصحیح القدوري (ص:۳۵۵) عن العیون؛ لکن في الجوہرة أنہ في الحولین ونصف ولو بعد الفطام محرِّم وعلیہ الفتوی، ․․․ والأصحّ أن العبرة لقوة الدلیل (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب الرضاع، ۴:۳۹۳-۳۹۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”والأصح أن العبرة لقوة الدلیل“: قال في البحر: ولا یخفی قوة دلیلہما الخ (رد المحتار)۔
(۳): رضاعت کے باب میں گواہوں کی ضرورت جب ہوتی ہے کہ کوئی انکاری ہو، پس صورت مسئولہ میں اگر آپ کو اپنی ماں کی صداقت کا یقین یا غالب گمان ہے تو گواہوں کی ضرورت نہیں، آپ کی تایا زاد بہن آپ پر بہرحال حرام ہے۔
والرضاع حجتہ حجة المال وھي شھادة عدلین أو عدل وعدلتین الخ (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب الرضاع، ۴:۴۲۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”حجتہ الخ“:أي: دلیل إثباتہ، وھذا عند الإنکار ؛ لأنہ یثبت بالإقرار مع الإصرارالخ (رد المحتار) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند