• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 164116

    عنوان: بغیر گواہوں کے نکاح کا حکم ، نکاح فاسد میں تین طلاق کا حکم اور صرف عورتوں کی موجودگی میں نکاح کا حکم

    سوال: جب میں ۲۴/ سال کا تھا تب میری امی نے مجھے بتایا تھا کہ میری شادی میری خالہ کی بیٹی سے ہوگی تب وہاں میری بہن اور بھائی موجود تھے جن کی عمر ۱۴/ اور ۱۶/ سال تھی پر کچھ ماہ بعد میں نے یہ بات اپنی خالہ کی بیٹی کو بھی بتا دی کہ امی نے یہ بولا کہ ہماری شادی ہوگی اور ہم دونوں ایک دوسرے سے اس کے بعد پیار کرنے لگے اور بہت قریب بھی آگئے، بوسہ بھی لیا ہے۔ اور میں نے اپنی خالہ کی بیٹی کے ساتھ بوس وکنار (foreplay) بھی کیا۔ اور وہ مجھے اپنا شوہر اور میں اسے اپنی بیوی مان چکا ہوں۔ میری خالہ کی بیٹی نے اور میں نے اکیلے میں تین بار قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے، بھی بولا تھا، تو کیا ہماری شادی ہوگئی؟ کیونکہ اس سے کچھ ماہ پہلے امی نے میرے بھائی اور بہن کے سامنے کہا تھا کہ ہماری شادی کرائیں گی پر جب ہم نے قبول ہے بولا تو کسی کو نہیں پتا ۔ سوال یہ ہے کہ: (۱) اوپر جو میں نے بتایا اس سے میرا نکاح ہوگیا یا نہیں؟ (۲) دوسری بات یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ میں نے غصہ میں خالہ کی بیٹی کو تین بار طلاق بول دیا تھا تو کیا طلاق بھی ہوگئی ؟ اب اگر میں خالہ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہوں تو کیسے کروں؟ کیا حلالہ کرنا ہوگا؟ (۳) ایک سوال یہ بھی ہے کیا نکاح میں گواہان کا مرد ہونا ضروری ہے؟ اگر بہت ساری عورتیں ہوں اور مرد نہ ہو تو کیا نکاح ہو جاتا ہے؟

    جواب نمبر: 164116

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1223-1023/N=11/1439

    (۱): اگر آپ نے اپنی خالہ زاد بہن سے نکاح کا ایجاب وقبول تنہائی میں کیا ہے، وہاں آپ دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں تھا تو آپ کا یہ نکاح نہیں ہوا؛ کیوں کہ گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرنے سے نکاح ہوتا ہے، تنہائی میں ایجاب وقبول کرنے سے نکاح نہیں ہوتا۔

    عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قولہ: لا نکاح إلا ببینة (سنن الترمذي ۱: ۱۴۰، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وینعقد بإیجاب وقبول (تنویر الأبصار مع الدر والرد،کتاب النکاح ۴: ۶۸، ۶۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،وشرط حضور شاہدین حرین أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولھما معاً علی الأصح فاھمین أنہ نکاح علی المذھب ، بحر، مسلمین الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، ۴: ۸۶- ۹۲)، قولہ: ”وینعقد“: ……والحاصل:أن النکاح والبیع ونحوہما وإن کانت توجد حسا بالإیجاب والقبول، لکن وصفہا بکونہا عقوداً مخصوصة بأرکان وشرائط یترتب علیہا أحکام وتنتفی تلک العقود بانتفائہا وجود شرعي زائد علی الحسی الخ (رد المحتار)۔

    (۲): جب خالہ زاد بہن سے آپ کا نکاح صحیح نہیں ہوا تو آپ کی دی ہوئی طلاقیں بھی اس پر واقع نہیں ہوئیں؛ لہٰذا آپ حلالہ کے بغیر اس سے دوبارہ شرعی طریقہ پر صحیح نکاح کرسکتے ہیں۔

    قولہ: ”من نکاح صحیح نافذ“: احترز بالصحیح عن الفاسد وھو ما عدم بعض شروط الصحة ککونہ بغیر شھود… والطلاق فیہ لا ینقص عدداً؛ لأنہ متارکة فلو طلقھا ثلاثاً لا یقع شیٴ ولہ تزوجھا بلا محلل (رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الرجعة، ۵: ۴۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۳): نکاح کے گواہوں میں کم از کم ایک مرد کا ہونا ضروری ہے، یعنی: نکاح کے گواہ دو عاقل وبالغ مسلمان مرد یا ایک عاقل وبالغ مسلمان مرد اور دو عاقل وبالغ مسلمان عورتیں ہوتی ہیں، پس اگر حاضرین میں صرف عورتیں ہوں، ان میں کوئی مرد نہ ہو تو نکاح نہ ہوگا اگرچہ عورتیں بہت ساری ہوں۔

    وشرط حضور شاہدین حرین أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولھما معاً علی الأصح فاھمین أنہ نکاح علی المذھب ، بحر، مسلمین الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، ۴: ۸۶- ۹۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند