معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 160488
جواب نمبر: 160488
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:838-867/M=8/1439
(۱تا ۷) منگنی کی حقیقت عامةً وعدہٴ نکاح کی ہوتی ہے لیکن آپ کے یہاں منگنی کا جو طریقہ رائج ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ صرف وعدہٴ نکاح کی حد تک نہیں رہتا بلکہ باضابطہ نکاح ہوجاتا ہے کیوں کہ باقاعدہ نکاح کا ایجاب وقبول کرایا جاتا ہے، خطبہٴ نکاح بھی پڑھا جاتا ہے، شرعی گواہ بھی ہوتے ہیں، حق مہر بھی طے ہوتا ہے، سو اگر حقیقت حال یہی ہے کہ منگنی کی تقریب میں نکاح کا بھر پروگرام طے رہتا ہے اور مجلس نکاح میں شرعی گواہ موجود ہوتے ہیں اور شرعی طریقے پر نکاح کا ایجاب وقبول کرایا جاتا ہے اور انعقاط نکاح سے مانع کوئی امر نہیں ہوتا تو منگنی کے وقت شرعاً نکاح بھی ہوجاتا ہے اور شرعاً نکاح ہوجانے کے بعد لڑکا لڑکی آپس میں مل سکتے ہیں اور جب ایک مرتبہ نکاح صحیح ہوگیا تو رخصتی کے وقت دوبارہ نکاح پڑھوانا فضول ہے اور نکاح چونکہ دائمی رشتہ ہوتا ہے اس لیے حتی الامکان اسے نباہنا چاہیے اور شدید مجبوری کے بغیر طلاق نہ دینی چاہیے اور طلاق کا اختیار صرف شوہر کو ہوتا ہے، اگر نکاح صحیح کے بعد خلوت وہمبستری سے پہلے طلاق ہوجائے تو شوہر کے ذمہ بیوی کو آدھا مہر دینا لازم ہوتا ہے۔
اور اگر منگنی میں معاملہ صرف وعدہٴ نکاح کی حد تک رہتا ہے، باقاعدہ نکاح نہیں ہوتا تو اس طرح کی منگنی کے بعد بھی لڑکا لڑکی دونوں آپس میں اجنبی ہی رہتے ہیں، اس لیے نکاح سے پہلے ان کا آپس میں ملنا ناجائز ہے اور اس طرح کی منگنی کو توڑنے کے لیے اگرچہ طلاق کی ضرورت نہیں لیکن بغیر شدید عذر کے وہ حقیقت میں کیا ہے اس بارے میں اپنے اہل حق مقامی علماء ومفتیان کرام سے رجوع کریں تو بہتر ہوگا وہ صورت حال سے پوری طرح باخبر ہوں گے اور قطعی طور پر شرعی حکم بتاسکیں گے، دیگر جزئیات کے جوابات بھی اسی پر موقوف ہیں کہ پہلے منگنی کی شرعی حیثیت واضح ہوجائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند