• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 160488

    عنوان: پاکستان کے ایک علاقے میں رائج منگنی کی شرعی حیثیت؟

    سوال: ایک اہم مسلئہ پوچھنا تھا۔ پاکستان میں خیبر پختونخواہ میں منگنی کا جو طریقہ رائج ہے یعنی منگنی میں لڑکی اور لڑکے کی طرف سے وکیل/ولی ایجاب و قبول کرتے ہیں، مولوی صاحب خطبہ بھی پڑھتا ہے ، گواہ بھی ہوتے ہیں، اور حق مہر بھی طے کرتے ہیں۔ اور بعد میں شادی کی تاریخ طے کرکے رخصتی کرتے ہیں۔ اور رخصتی کے وقت بارات کے ساتھ ہی دوبارہ نکاح پڑھاتے ہیں۔ عمومی زبان میں لوگ منگنی کے نکاح کو کچا اور شادی کے وقت بارات کے ساتھ والے نکاح کو پکا نکاح بولتے ہیں۔ اب اس صورت میں درج ذیل سوالوں کے جوابات درکار ہیں۔ (۱) کیا اس طرح کی منگنی اسلام میں قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟ (۲) اگر لڑکا یا لڑکی منگنی ختم کرنا چاہیں، تو حق مہر دینا ھو گا یا نہیں؟ (۳) اگر یہ نکاح ہے ، تو پھر شادی کے موقع پر، بارات کے ساتھ دوبارہ نکاح کیوں کرتے ہیں؟ کیا منگنی کا نکاح کافی نہیں؟ دوبارہ نکاح کرنا، یا منگنی کے وقت نکاح کرنا بدعت نہیں؟ (۴) کیا اس طرح کی منگنی کے بعد لڑکا، لڑکی اپس میں مل سکتے ہیں۔ (۵)کیا لڑکا یا لڑکی کی مرضی کے بغیر گھر والے منگنی ختم کر سکتے ہیں؟ (۶) اگر لڑکی یا لڑکے والے منگنی ختم کرنا چاھیں تو لڑکے کو طلاق دینی ھو گی یا صرف کہنے سے منگنی ختم ہو جاتی ہے کہ ہم نے منگنی ختم کر دی؟ (۷) کیا اسلام میں دو دفعہ نکاح پڑھانا جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 160488

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:838-867/M=8/1439

    (۱تا ۷) منگنی کی حقیقت عامةً وعدہٴ نکاح کی ہوتی ہے لیکن آپ کے یہاں منگنی کا جو طریقہ رائج ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ صرف وعدہٴ نکاح کی حد تک نہیں رہتا بلکہ باضابطہ نکاح ہوجاتا ہے کیوں کہ باقاعدہ نکاح کا ایجاب وقبول کرایا جاتا ہے، خطبہٴ نکاح بھی پڑھا جاتا ہے، شرعی گواہ بھی ہوتے ہیں، حق مہر بھی طے ہوتا ہے، سو اگر حقیقت حال یہی ہے کہ منگنی کی تقریب میں نکاح کا بھر پروگرام طے رہتا ہے اور مجلس نکاح میں شرعی گواہ موجود ہوتے ہیں اور شرعی طریقے پر نکاح کا ایجاب وقبول کرایا جاتا ہے اور انعقاط نکاح سے مانع کوئی امر نہیں ہوتا تو منگنی کے وقت شرعاً نکاح بھی ہوجاتا ہے اور شرعاً نکاح ہوجانے کے بعد لڑکا لڑکی آپس میں مل سکتے ہیں اور جب ایک مرتبہ نکاح صحیح ہوگیا تو رخصتی کے وقت دوبارہ نکاح پڑھوانا فضول ہے اور نکاح چونکہ دائمی رشتہ ہوتا ہے اس لیے حتی الامکان اسے نباہنا چاہیے اور شدید مجبوری کے بغیر طلاق نہ دینی چاہیے اور طلاق کا اختیار صرف شوہر کو ہوتا ہے، اگر نکاح صحیح کے بعد خلوت وہمبستری سے پہلے طلاق ہوجائے تو شوہر کے ذمہ بیوی کو آدھا مہر دینا لازم ہوتا ہے۔

     اور اگر منگنی میں معاملہ صرف وعدہٴ نکاح کی حد تک رہتا ہے، باقاعدہ نکاح نہیں ہوتا تو اس طرح کی منگنی کے بعد بھی لڑکا لڑکی دونوں آپس میں اجنبی ہی رہتے ہیں، اس لیے نکاح سے پہلے ان کا آپس میں ملنا ناجائز ہے اور اس طرح کی منگنی کو توڑنے کے لیے اگرچہ طلاق کی ضرورت نہیں لیکن بغیر شدید عذر کے وہ حقیقت میں کیا ہے اس بارے میں اپنے اہل حق مقامی علماء ومفتیان کرام سے رجوع کریں تو بہتر ہوگا وہ صورت حال سے پوری طرح باخبر ہوں گے اور قطعی طور پر شرعی حکم بتاسکیں گے، دیگر جزئیات کے جوابات بھی اسی پر موقوف ہیں کہ پہلے منگنی کی شرعی حیثیت واضح ہوجائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند