• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 156304

    عنوان: زبردستی اور مجبوری والا نکاح کہاں تک درست ہے؟

    سوال: حضرت، میرا نام شیخ احمد عمر تیس سال، اورنگ آباد، مہاراشٹرا سے ہوں۔ مجھے ایک لڑکی پسند تھی اس سے میں شادی کرنا چاہتا تھا پر میرے والدین نے ایسا نہیں ہونے دیا میری کسی اور لڑکی سے شادی کروا دیئے، میں نے مجبور ہوکر حالات کو دیکھتے ہوئے زبردستی نکاح قبول کرلیا ، اب نکاح ہوئے بعد مجھے میری بیوی پسند نہیں، میں بہت ڈپریشن (ذہنی الجھن) میں رہ رہا ہوں، میری شادی شدہ زندگی خراب ہو گئی ،مجبوری کی زندگی گذر رہی ہے ہم میاں بیوی کی۔ سوال یہ ہے کہ: زبردستی اور مجبوری والا نکاح کہاں تک درست ہے؟ مجھے تسلی بخش جواب دیں۔

    جواب نمبر: 156304

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 207-153/D=2/1439

    جب آپ نے اپنی زبان سے نکاح قبول کرلیا تو وہ نکاح شرعاً ہوگیا خواہ سرپرستون کے دباوٴ میں آپ نے قبول کیا ہو، موجودہ حالات میں سرپرستوں کو لڑکے لڑکی کا عندیہ (مرضی) معلوم کرکے رشتہ طے کرنا چاہئے۔ بہرحال جو ہو چکا ہے اسے فیصلہ تقدیر سمجھتے ہوئے اس پر راضی ہونے اور طبیعت کو خوش رکھنے کی کوشش کیجئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے وعاشروہن بالمعروف فان کرہتموہن فعسی ان تکرہو شیئا الآیة ان عورتوں کے ساتھ اچھی گذر بسر کرو اور اگر تم کو ناپسند ہوں (النساء: ۱۹) تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس کے اندر کوئی بڑا فائدہ رکھ دے اور حدیث میں ہے کہ کوئی مرد عورت سے نفرت نہ کرے اگر اس میں ایسی کوئی عادت یا خصلت ہوگی جو مرد کو ناپسند ہو تو دوسری عادتیں ایسی بھی ہوگی جو مرد کو پسند ہوں گی۔ ڈپریشن بہت زیادہ احساس کرنے اور سوچنے سے بڑھتا ہے پس آپ دونوں باتوں کو چھوڑ دیجئے اور اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ اسی بیوی کے ساتھ زندگی سکون و محبت سے گذر جائے اور اولاد صالح نصیب ہو جو آنکھ کی ٹھنڈک بنیں اور دنیا و آخرت نیک نامی اور کامیابی کا ذریعہ بنیں۔

    جس لڑکی سے آپ شادی کرنا چاہتے تھے اگر اس کی شادی نہ ہوئی ہو اور آپ کے لیے دو بیویاں رکھنا ان کے حقوق ادا کرنا ممکن ہو تو اس سے بھی شادی کرلیں۔ اور اگر اس کی شادی کہیں اور ہو چکی ہو تو پھر اس کا خیال دل سے نکال دیں۔

    نوٹ: ایک سے زائد بیوی سے استطاعت ہونے کی صور ت میں شادی کرنا اگر چہ جائز ہے مگر موجودہ حالات میں بیشمار مسائل پیدا ہوتے ہیں جو بسااوقات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں پس اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند