• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 155798

    عنوان: نامحرم افراد كا نکاح میں دُلہن کے طرف سے وکیل بننا؟

    سوال: حضرت مفتی صاحب! نامحرم (بہنوئی یا جیجو) نکاح میں دُلہن کے طرف سے وکیل بنے ہیں تو یہ صحیح ہے یا غلط؟ اگر غلط ہے تو اس کا صحیح طریقہ بتائیں، کیونکہ میری شادی میں یہی ہوا ہے، اس وجہ سے میری زندگی میں بہت تنگ دستی چل رہی ہے، کوئی دعاء قبول نہیں ہو رہی ہے۔

    جواب نمبر: 155798

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:175-122/L=2/1439

    اولیاء میں سے کسی کا وکیل بننا مسنون ہے تاہم اگر غیرولی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے اجازت لے لے تو یہ بھی کافی ہے ،اگر آپ کے بہنوئی نے آپ سے اجازت لی اور پھر نکاح ہوگیا تو یہ بھی درست ہوا ،زندگی کی تنگی کا مدار اس پر نہیں ہے ،اسی طرح اگر آدمی آدابِ دعا کی رعایت کرتے ہوئے دعا مانگے تو اس کی دعاضرورقبول ہوتی ہے ،مگر قبولیت کا ثمرہ کبھی تو عیاناً ظاہر ہوجاتا ہے اور کبھی اللہ تعالی اس کا بدلہ دنیا میں نہ دے کر آخرت کے لیے اس کو محفوظ فرمالیتے ہیں ،اس لیے تنگی سے یا دعا کا ثمرہ عیاناً نظر نہ آنے کی صورت میں بددل نہ ہونا چاہیے ،اکثر نیک لوگوں کی زندگیاں تنگ ہی گذراکرتی ہیں اور اللہ تعالی ان کے صبر کی وجہ سے ان کے مراتب بلند کرتے رہتے ہیں جس کا ثمرہ ان کو آخرت میں نصیب ہوگا۔ان شاء اللہ تعالی


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند