• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 152257

    عنوان: پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنا؟

    سوال: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ جب کہ پہلی بیوی سے تین بچے ہیں۔ اوراگر بیوی اجازت دیدے تو کیا ایک ہی گھر میں رکھنا صحیح ہے یا الگ الگ رکھنا؟ کیا اس سے بچوں کی زندگی میں پریشانی بن سکتی ہے؟ مہربانی کر کے جلد از جلد جواب دیں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 152257

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1044-1047/N=10/1438

    (۱): اسلام میں ایک مرد کو چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور یہ اجازت مطلق ہے ،پہلی یا دوسری بیوی کی اجازت ورضامندی پر موقوف نہیں ہے ؛ البتہ ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان عدل وانصاف کرنا ضروری ہوگا، کسی ایک کی طرف جھکاوٴ زیادہ رکھ کسی کے حقوق واجبہ میں کوتاہی کرنا جائز نہ ہوگا، اور اگر کوئی شخص ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان نا انصافی کرے گا تو سخت گنہگار ہوگا اور قیامت کے دن اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔

     اور اگر کوئی شخص مصلحتاً پہلے موجودہ بیوی کی ذہن سازی کرکے اسے بھی راضی کرلے، اس کے بعد دوسری شادی کرے تو یہ مناسب ہے تاکہ دوسری بیوی آنے پر پہلی بیوی کی طرف سے ناخوش گوار حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے، جو بعض مرتبہ آدمی کے لیے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔

    قال اللہ تعالی:فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة الآیة (سورہ نسا، آیت:۳)،عن أبي ھریرة عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”إذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینھما جاء یوم القیامة وشقہ ساقط“(مشکوة شریف ص ۲۷۹،بحوالہ: سنن ترمذی وسنن ابو داود وغیرہ، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)،وقال فی الدر ( مع الرد، کتاب النکاح، باب القسم ۴: ۳۷۹،۳۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند): (یجب) وظاھر الآیة أنہ فرض، نھر (أن یعدل) أي: أن لا یجور (فیہ) أي: فی القسم بالتسویة فی البیتوتة (وفی الملبوس والمأکول) والصحبة الخ، وفي ص ۳۸۴منہ:(والبکر والثیب والجدیدة والقدیمة والمسلمة والکتابیة سواء) لإطلاق الآیة اھ

    (۲): جی ہاں! اگر دونوں بیویاں راضی ہوں تو دونوں کو ایک ساتھ ایک گھر میں رکھنا اور کھانے پینے کا نظام بھی مشترک رکھنا جائز ہے((بہشتی زیور مدلل، ۴: ۳۳، مسئلہ: ۱، مطبوعہ: کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور)، ویسے بہتر یہ ہے کہ دونوں کو الگ الگ رکھا جائے تاکہ آئے دن کے اختلافات اور جھگڑوں سے حفاظت رہے؛ کیوں کہ بیویوں کا باہمی اختلاف بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند