معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 150803
جواب نمبر: 150803
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 910-903/Sn=8/1438
مہر کوئی یک طرفہ چیز نہیں ہے کہ لڑکی والے جتنا کہہ دیں وہ مہر بن جائے؛ بلکہ یہ لڑکے کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر لڑکی والوں کی طرف سے بہت زیادہ مہر مقرر کرنے کا مطالبہ آئے تو لڑکے کو چاہیے کہ صاف کہہ دے کہ مہر اتنا نہیں؛ بلکہ اتنا ہوگا، اسی کی میں استطاعت رکھتا ہوں، اگر لڑکا صاف کہہ دے گا تو مہر اتنا ہی مقرر ہوگا جس کی وہ استطاعت رکھتا ہے۔ مہرکے سلسلے میں شرعی اصول بھی یہی ہے کہ مہر بہت زیادہ مقرر نہ کیا جائے؛ بلکہ مہر مقرر کرتے وقت لڑکے کی حیثیت کو بھی ملحوظ رکھا جائے، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے فرمایا: بہت زیادہ مہر مقرر نہ کرو؛ کیوں کہ بہت زیادہ مہر مقرر کرنا اگر کوئی فضیلت کی چیز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لائق سب سے زیادہ تھے حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات اسی طرح اپنی صاحبزادیوں کا مہر بارہ اوقیہ (ایک کلو پانچ سو تیس گرام نو سو ملی گرام چاندی) سے زیادہ مقرر نہیں کیا۔ عن عمر بن الخطاب قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء؛ فإنہا لو کانت مکرمة في الدنیا وتقوی عند ا للہ لکان أولاکم بہا نبي اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- ما علمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکح شیئًا من نسائہ ولا أنکح شیئا من بناتہ علی أکثر من اثنتي عشرة أوقیة (مرقاة مع المشکاة، رقم: ۲۷۰۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند