• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 149321

    عنوان: نکاح کے مہر میں حج یا عمرہ رکھنا

    سوال: میں انجینئر ہوں اور اب تک بے روزگار ہوں، کافی کوشش کرنے کے بعد بھی اب تک مجھے نوکری نہ مل سکی، میں ایک مڈل کلاس فیملی سے ہوں، گھر میں ایک بڑے بھائی (عمران) ہیں جو شادی شدہ ہیں، میں (محسن) مجھ سے چھوٹا ایک بھائی اور ایک بہن ہیں جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری منگنی میری خالہ کی بیٹی (تبسم) سے ہوئی ہے، اور میری منگیتر کے گھر میں عمرہ کرانا بطور حق مہر یہ بات چل رہی ہے، میں اس بات کو لے کر کافی پریشان ہوں، میرے نزدیک کچھ باتیں ہیں جو میں نے ان کے سامنے رکھی ہیں:۔ (۱) میرے بڑے بھائی کا مجھ سے پہلے یہ حق ہے (میرے گھر کے اندرونی معاملہ کے اعتبار سے اگر میرے گھر والے تیار بھی ہوجاتے ہیں تب بھی، کیونکہ میرے بھائی نے میرے لیے کافی قربانی دی ہے جیسے کہ مجھے انجینئر بنایا جب کہ انہوں نے خود کی تعلیم بھی مکمل نہیں کی)۔ (۲) میں نے تبسم کو یہ کہا کہ مہر بیشک عورت کا حق ہوتا ہے میں اس میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا، کیونکہ یہ حق اللہ نے عورت کو دیا ہے لیکن عورت کو چاہئے ایسا حق مہر باندھے جو آدمی کی استطاعت میں ہو، میں نے اس کو یہ بھی کہا کہ حج اور عمرہ ایسی چیز ہے جس کو آدمی پیسوں کے بدلے نہیں کرتا بلکہ تقدیر میں ہونا چاہئے تب ہی کرسکتا ہے، مجھے مہر باندھنے کے لیے کوئی اعتراض نہیں ہے، اگر میں نے ایسا مہر باندھ بھی لیا اور پھر ادا نہیں کر پایا تو؟ مولانا، میں بہت تذبذب میں پڑ گیا ہوں، کیونکہ مجھے ابھی تک نوکری بھی نہیں ملی ہے، برائے مہربانی آپ مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟ اور آپ مجھے مہر فاطمی کے بارے میں بھی بتائیں جو آج کے حساب سے کیسے اور کتنا ہوگا؟ اور اگر مناسب سمجھیں تو آپ مجھے اپنا رابطہ نمبر دیں، مجھے آپ سے ساری تفصیل سے بات کرنی ہے۔

    جواب نمبر: 149321

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 503-558/N=6/1438

     (۱) : نکاح میں اصل مہر مثل ہوتا ہے، یعنی: والد کی جانب سے عورت کے خاندان سے حسن وجمال اور عمر وغیرہ میں اس جیسی عورت کا جو مہر رہا ہو، وہی اصلاً اس عورت کا بھی مہر ہوگا، پس اگر دور حاضر میں حج یا عمرے کا جو خرچ ہوتا ہے، اگر آپ کی منگتیر کا مہر مثل اس کے برابر یا آس پاس ہے تو لڑکی والوں کی رائے غلط نہیں، دونوں طرف سے چند لوگ حج یا عمرے کے خرچہ کا اندازہ لگالیں اور اس کے حساب سے مہر مقرر کرلیں، جو آپ نکاح کے بعد اپنی بیوی کو بہ شکل رقم حوالہ کردیں، آپ کا بیوی کے ساتھ جانا شرعاً ضروری نہیں، وہ اپنے بھائی یا والد کے ساتھ بھی حج یا عمرے پر جاسکتی ہے۔ اور اگر آپ کی مالی حیثیت بہت کمزور ہے، یعنی: آپ بیوی کا مہر مثل ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو لڑکی والوں سے بات چیت کرکے باہمی رضامندی سے کوئی مناسب مہر مقرر کرلیں جس کی ادائیگی آپ کے لیے بہت زیادہ دشوار نہ ہو اور وہ لڑکی کی حیثیت کے اعتبار سے بہت زیادہ کم بھی نہ ہو۔

     (۲) : اکثر روایات میں مہر فاطمی کی مقدار پانچ سودرہم آئی ہے، جس کی مقدار مروجہ اوزان میں ۹۰۰ء ۱۵۳۰ (ڈیرھ کلو، تیس گرام، نو سو ملی گرام) چاندی ہوتی ہے (اوزان شرعیہ، موٴلفہ: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ) ، پس چاندی کی درج بالا مقدار یا اس کی قیمت مہر فاطمی کہلائے گی۔ اور چوں کہ چاندی کی قیمت ہر روز یکساں نہیں رہتی؛ بلکہ گھٹی بڑھتی رہتی ہے؛ اس لیے جس دن آپ کا نکاح ہو یا نکاح کے بعد جس دن مہر ادا کرنا ہو، اس دن اپنے یہاں مارکیٹ میں مذکورہ بالا مقدار چاندی کی قیمت معلوم کرلیں اور س میں اس قیمت کا اعتبار کریں، جس پر سنار گاہکوں کے ہاتھ چاندی فروخت کرتے ہیں، اس قیمت کا اعتبار نہ کریں، جس پر سنار عام گاہکوں سے چاندی یا اس کا کوئی زیور وغیرہ خریدتے ہیں۔

     (۳) : آپ تفصیلی گفتگو کے لیے علاقے کے کسی مستند ومعتبر مفتی سے رابطہ کریں اور ان سے وقت لے کر آمنے سامنے زبانی گفتگو کریں؛ کیوں کہ تفصیلی گفتگو آمنے سامنے ہی مناسب ہوتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند