معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 149321
جواب نمبر: 149321
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 503-558/N=6/1438
(۱) : نکاح میں اصل مہر مثل ہوتا ہے، یعنی: والد کی جانب سے عورت کے خاندان سے حسن وجمال اور عمر وغیرہ میں اس جیسی عورت کا جو مہر رہا ہو، وہی اصلاً اس عورت کا بھی مہر ہوگا، پس اگر دور حاضر میں حج یا عمرے کا جو خرچ ہوتا ہے، اگر آپ کی منگتیر کا مہر مثل اس کے برابر یا آس پاس ہے تو لڑکی والوں کی رائے غلط نہیں، دونوں طرف سے چند لوگ حج یا عمرے کے خرچہ کا اندازہ لگالیں اور اس کے حساب سے مہر مقرر کرلیں، جو آپ نکاح کے بعد اپنی بیوی کو بہ شکل رقم حوالہ کردیں، آپ کا بیوی کے ساتھ جانا شرعاً ضروری نہیں، وہ اپنے بھائی یا والد کے ساتھ بھی حج یا عمرے پر جاسکتی ہے۔ اور اگر آپ کی مالی حیثیت بہت کمزور ہے، یعنی: آپ بیوی کا مہر مثل ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو لڑکی والوں سے بات چیت کرکے باہمی رضامندی سے کوئی مناسب مہر مقرر کرلیں جس کی ادائیگی آپ کے لیے بہت زیادہ دشوار نہ ہو اور وہ لڑکی کی حیثیت کے اعتبار سے بہت زیادہ کم بھی نہ ہو۔
(۲) : اکثر روایات میں مہر فاطمی کی مقدار پانچ سودرہم آئی ہے، جس کی مقدار مروجہ اوزان میں ۹۰۰ء ۱۵۳۰ (ڈیرھ کلو، تیس گرام، نو سو ملی گرام) چاندی ہوتی ہے (اوزان شرعیہ، موٴلفہ: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ) ، پس چاندی کی درج بالا مقدار یا اس کی قیمت مہر فاطمی کہلائے گی۔ اور چوں کہ چاندی کی قیمت ہر روز یکساں نہیں رہتی؛ بلکہ گھٹی بڑھتی رہتی ہے؛ اس لیے جس دن آپ کا نکاح ہو یا نکاح کے بعد جس دن مہر ادا کرنا ہو، اس دن اپنے یہاں مارکیٹ میں مذکورہ بالا مقدار چاندی کی قیمت معلوم کرلیں اور س میں اس قیمت کا اعتبار کریں، جس پر سنار گاہکوں کے ہاتھ چاندی فروخت کرتے ہیں، اس قیمت کا اعتبار نہ کریں، جس پر سنار عام گاہکوں سے چاندی یا اس کا کوئی زیور وغیرہ خریدتے ہیں۔
(۳) : آپ تفصیلی گفتگو کے لیے علاقے کے کسی مستند ومعتبر مفتی سے رابطہ کریں اور ان سے وقت لے کر آمنے سامنے زبانی گفتگو کریں؛ کیوں کہ تفصیلی گفتگو آمنے سامنے ہی مناسب ہوتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند