• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 148995

    عنوان: دو بیویوں میں برابری کیسے کی جائے؟

    سوال: بندے کا تعلق پاکستان سے ہے اور بندہ ملازمت کے سلسلے میں مکہ مکرمہ میں قیام پذیر ہے ۔ بندے کے درج ذیل سوالات دو بیویوں میں برابری کرنے سے متعلق ہیں۔میری بیوی کئی سالوں سے ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس میں وہ بتدریج چلنے پھرنے سے معذور ہوگئی ہے اور اب اسے اپنی ٹانگوں پر کسی قسم کا کوئی قابو نہیں رہا ہے ۔اس کے علاوہ اس کوپیشاب پاخانے پربھی کوئی قابو نہیں جس کے باعث ۲۴ گھنٹے ڈائپرز میں رہتی ہے ۔یا تو پلنگ پر ہوتی ہے یا کچھ وقت کے لئے اسے وہیل چیئر پر بٹھا دیا جاتا ہے ۔ان تمام وجوہات کی بنا پر نہ وہ بندے کے ازدواجی حقوق ادا کرسکتی ہے اور نہ گھر سنبھال سکتی ہے ۔ان حالا ت میں بندے نے بزرگوں کے مشورے اور اپنی بیوی کی رضامندی سے حال میں دوسری شادی کی ہے ۔دوسرے نکاح سے پہلے ہونے والی بیوی کو گھرکے سارے حالات بتادیئے گئے تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ دونوں بیویوں کو ایک ہی گھر میں رہنا ہوگاگو کہ دونوں کے کمرے اور حمام علیحدہ علیحدہ ہونگے ۔بندے کا دوسرا نکاح کراچی میں ۱۳ ستمبر کو ہوا لیکن رخصتی بندے نے ویزے کے حصول تک ملتوی رکھی۔نکاح کے بعد بندے نے دوسری بیوی کو سعودی عرب لانے کے لئے ویزے کے حصول کی کوشش شروع کی۔ اس دوران دوسری بیوی کراچی میں اپنے گھر میں قیام پذیر رہی جبکہ بندہ مکہ مکرمہ پہلی بیوی کے پاس واپس آگیا۔اس سلسلے میں بندے کے ذہن میں درج ذیل سوالات ہیں: 1. جس دوران دوسری بیوی کراچی میں قیام پذیر رہی جبکہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی، اُس دوران بھی کیا دونوں بیویوں میں برابری کرنی چاہیئے تھی؟ جب تک دوسری بیوی کراچی میں قیام پذیر رہی، بندہ جیب خرچ پابندی سے بھیجتا رہا لیکن چونکہ سعودی عرب کا رہنے کا معیار پاکستان کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے اور یہاں پاکستان کے مقابلے میں ماہانہ خرچ کہیں زیادہ ہوتا ہے اسلئے بندے نے جو خرچ پہلی بیوی کو سعودی عرب میں دیا وہ دوسری بیوی کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ 2. اگر دوسری بیوی سے نکاح کے بعد دونوں بیویوں میں برابری کرنا ضروری تھا تو بندے نے اس دوران جو خرچہ اپنی پہلی بیوی پر کیا یا جو کچھ پہلی بیوی کے لئے خریدا او ر دوسری کے لئے نہیں خریدا یا دوسری کے لئے خریدا اور پہلی کے لئے نہیں خریدا،کیااسکی تلافی کرنا ہوگی؟ اس کی کچھ مثالیں یہ ہیں: دوسرے نکا ح کے بعد بندے نے پہلی بیوی کے لئے کپڑے خریدے اور دوسری کے لئے نہیں خریدے ۔ b. پہلی بیوی کی بیماری کے سبب اسکی ضروریات دوسری بیوی کے مقابلے میں بالکل مختلف ہیں ۔مثلاً پہلی بیوی کو دوائیوں اور ڈائپرز وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دوسری کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔دوسرے نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے بندے نے پہلی بیوی کی دوائیوں اور ڈائپرز وغیرہ پر خرچہ کیا جب کہ ایسا کوئی خرچہ دوسری بیوی کے لئے نہیں کیا۔ دوسری بیوی کو نکاح سے ہفتہ دس دن پہلے انگوٹھی اور جوڑے کے پیسے بھجوائے جبکہ پہلی بیوی کو ایسا کچھ نہیں دیا۔ d. دوسری بیوی کے ویزے کے حصول کے لئے بندے نے ایک خطیر رقم دوسری بیوی کو کراچی بھجوائی جبکہ یہ رقم پہلی بیوی کو نہیں دی۔ 3. ۲۷نومبر کو بندہ دوسری بیوی کو کراچی سے لے آیا۔ایک رات بندہ پہلی بیوی کے پاس سوتا ہے اور ایک رات دوسری کے پاس۔ دن میں کئی بار بندے کو پہلی بیوی کا ڈائپر بدلنا ہوتا ہے ،حمام لیکر جانا ہوتا ہے ،ہفتہ دس دن میں نہلانا ہوتا ہے ، اسلئے دن میں بندے کا خاصا وقت پہلی بیوی کے ساتھ ان کاموں میں بھی گذرتا ہے ۔بندہ باوجود کوشش کے ان اوقات کا حساب نہیں رکھ پاتا کہ اتنا ہی وقت دوسری بیوی کے ساتھ بھی گذارے ۔ اسکے علاوہ بھی بندہ بقیہ اوقات میں باقاعدہ حساب نہیں رکھتاکہ دونوں میں برابری کرسکے ۔ بندے کا سوال یہ ہے ان حالات میں بندہ دونوں میں وقت کی برابری کا کس طرح خیال رکھے کہ بندہ گناہ گار نہ ہو اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں بندے سے مواخذہ نہ ہو۔

    جواب نمبر: 148995

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 690-805/M=7/1438

    (۱-۳) دو بیویوں کے درمیان نان ونفقہ اور شب گذاری میں عدل ومساوات قائم رکھنا واجب ہے، نکاح کے بعد رخصتی سے امتناع اگر بیوی کی جانب سے ہے تب تو اس کا نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہوتا اور اگر بیوی کی طرف سے نشوز و امتناع نہیں بلکہ شوہر ہی کی جانب سے تاخیر پائی جارہی ہے تو نفقہ لازم ہوتا ہے، صورت مسئولہ میں دوسری بیوی جو کراچی میں قیام پذیر رہی اور آپ اس کا خرچ پابندی سے بھیجتے رہے یہ اچھا کیا، اس میں آپ نے پاکستان میں موجود بیوی کو پاکستانی معیار کے مطابق اور سعودیہ والی کو سعودیہ کے حساب سے خرچ دیا تو یہ عدل کے خلاف نہیں، دوسرے نکاح کے بعد پہلی بیوی کے لیے کپڑے خریدے تو دوسری بیوی کے لیے بھی خریدنا چاہیے تھا، اور برابری (تسویہ) صرف شب گذاری میں لازم ہے، دن کے اوقات میں لازم نہیں، اسی طرح بیمار بیوی کے ساتھ بیماری کے زمانہ میں تیمارداری کی وجہ سے شب وروز کے اوقات کا اکثر حصہ گزارنا پڑے تو اس میں بھی حرج نہیں، اس کی صحت یابی تک اس کی اجازت ہے، پہلی بیوی کی دوائیوں اور ڈائپر وغیرہ میں آپ نے بضرورت ومجبوری اگر خرچ کیا اور دوسری بیوی کو ابھی اس طرح کی ضرورت ہی نہیں اسی طرح دوسری بیوی کے ویزے کے لیے آپ نے رقم بھجوائی اور پہلی بیوی کو اس کی ضرورت ہی نہیں تو اس میں شرعاً مضائقہ نہیں، گنجائش ہے، بہرحال اپنے طور پر عدل ومساوات قائم رکھنے کی پوری کوشش رکھیں اور کمی کوتاہی کی معافی تلافی کرلیا کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند