• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 148621

    عنوان: کیا لڑکا شادی سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھ سکتا ہے اور ملاقات کر سکتا ہے ؟

    سوال: مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا لڑکا شادی سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھ سکتا ہے اور ملاقات کر سکتا ہے ؟اس ملاقات کی شریعت میں کس حد تک اجازت ہے اور کیا طریقہ بتایا گیا ہے ؟ لڑکی والو سے کس طرح بات کی جا ئے ؟اس بات کی بھی وضاحت فرمادیں کہ اگر لڑکی والے لڑکی دکھانے سے منع کردیں تو پھر کیا کرنا چاہئے ؟ کیونکہ لڑکے کا پر زور اصرار ہے کہ میں پہلے دیکھوں گا ضروری۔یہ بات بھی واضح رہے کہ لڑکی دکھانے کی اجازت لڑکی والو سے رشتہ پکّا ہونے کے بعد لی جاتی ہے (عموماَ)۔ اب لڑکا اگرلڑکی کو دیکھنے کے بعد منع کر دے کہ میرا دل مطمئن نہیں ہو رہا یا لڑکی پسند نہیں آئی تو اس صورت میں کیا کرا جائے۔ کیا رشتہ ختم کر دیں؟ (رشتہ پکّا ہونے کے بعد اگر ٹوٹتا ہے تو اس کو بڑی بدنامی سمجھا جاتا ہے )

    جواب نمبر: 148621

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 439-416/sd=6/1438

     جس عورت سے نکاح کا واقعی ارادہ ہو، نکاح سے پہلے لڑکے کے لیے اُس کو کسی بہانے سے ایک نظر دیکھنے کی گنجائش ہے، تاکہ نکاح کے بعد کسی ناگواری کا اندیشہ نہ رہے، حدیث شریف سے اِس کی اجازت صراحتاً ثابت ہے اور حدیث سے صرف ایک نظر دیکھ لینے کی اجازت ثابت ہے،تنہائی ، خلوت یا باقاعدہ آمنے سامنے بیٹھنے کا حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے،علاوہ از ایں یہ صورت نہ صرف یہ کہ بعض خاندان والوں کے لئے ناپسندیدہ ہے؛ بلکہ حیا اور غیرت کے بھی خلاف ہے۔

    (۲)اگر کسی بہانے سے لڑکی کو ایک نظر دیکھنی کی صورت نہ ہو،تو گھر کی جن عورتوں پر لڑکے کو اعتماد ہے ان کو لڑکی کے گھر بھیج دیں تاکہ وہ اس کی صحیح صورت حال کا جائزہ لے کر لڑکے کو باخبر کردیں ۔

    (۳) اگر رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے نے لڑکی کو دیکھ کر نکاح کرنے سے منع کر دیا، تو یقینا یہ ایک طرف تو لڑکی اور اُس کے خاندان والوں کے لیے عار کا سبب ہے اور دوسری طرف لڑکے کے خاندان والوں کے لیے بد نامی کا سبب ہے، اس لیے شریعت کا اصل منشاء یہ ہے کہ رشتہ طے ہونے سے پہلے ہی لڑکی کی صورتحال سے لڑکے کو واقف کرانے کی کوئی صورت نکال لی جائے، خواہ لڑکے کے دیکھنے کی شکل میں ہو یا گھر کی معتمد خاتون کے ذریعہ۔ عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا خطب أحدکم المرأة، فإن استطاع أن ینظر إلی ما یدعوہ إلی نکاحہا فلیفعل۔ (سنن أبي داؤد، کتاب النکاح / باب الرجل ینظر إلی المرأة وہو یرید تزویجہا ۱/۲۸۴)عن المغیرة بن شعبة رضي اللّٰہ عنہ أنہ خطب امرأة، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أنظر إلیہا فإنہ أحریٰ أن یؤدم بینکما۔ (سنن الترمذي ۱/۲۰۷)قال الشیخ ولي اللّٰہ الدہلوي قدس اللّٰہ روحہ: السبب في استحباب النظر إلی المخطوبة أن یکون التزوج علی رَوِیَّةٍ وأن یکون أبعد من الندم الذي یلزمہ إن اقتحم في النکاح ولم یوافقہ فلم یردَّہ، وأسہل للتلافي إن رَدَّ، وأن یکون تزوجہا علی شوق ونشاط إن وافقہ، والرجل الحکیم لا یلج مولجًا حتی یتبین خیرہ وشرہ قبل ولوجہ۔ (حجة اللّٰہ البالغة مع شرح رحمة اللّٰہ الواسعة / من أبواب تدبیر المنزل ۵/۳۸حجاز دیوبندوإذا لم یمکنہ النظر استحب أن یبعث امرأة یثق بہا تنظر إلیہا وتستخبرہ۔ (فتح الملہم ۳/۴۷۶رشیدیة))قال الحافظ في الفتح، قال الجمہور: لا بأس أن ینظر الخاطب إلی المخطوبة قالوا: ولا ینظر إلی غیر وجہہا وکفیہا … وقال الجمہور أیضًا: یجوز أن ینظر إلیہا إذا أراد ذٰلک بغیر إذنہا۔ (فتح الملہم ۳/۴۷۶رشیدیة)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند