• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 147947

    عنوان: سوال میں وقتی نکاح کا جو طریقہ مذکور ہے، وہ غیر شرعی ہے

    سوال: (١) - کيا فرماتے ہيں علمائے دين کہ آج کل نکاح کا ايک طريقہ بعض ممالک ميں رائج ہےکہ مختلف ممالک سے سير و سياحت کے لئے آئے ہوئے افراد اس ملک کي عورتوں سے نکاح کرليتے ہيں، جس ميں بنيادي شرائط مثلا گواہ، مہر وغيرہ کو ملحوظ رکھتے ہيں ليکن چھٹياں ختم ہونے پر طلاق دے ديتے ہيں اور عموما يہ بات فريقين کے علم ميں ہوتي ہے کہ چھٹيوں کے اختتام پہ فرقت ہوجائے گي، تاہم عقد نکاح ميں اس کا کوئي تذکرہ نہيں ہوتا? براہ کرم رہنمائي فرمائيں ؟\n\n(٢) - کيا فرماتے ہيں علمائے دين کہ بعض مغربى ممالک ميں جہاں غير شادى شدہ تعلقات کا رواج ہے اور شادى سے پہلے فريقين آپس ميں وقت گزارتے ھيں ليکن مالى يا ديگر وجوہات کى بنا پر کچھ عرصہ تک اکھٹے رہنے کا انتظام نہيں ہوتا. اس صورتحال ميں بعض لوگوں نے حرام تعلقات سے بچنے کيليے نکاح کى يہ صورت تجويز کى ہے جس ميں بنيادي شرائط مثلا گواہ، مہر وغيرہ کو ملحوظ رکھا جاتا ھے اور آپس ميں تعلق قائم کيا جاتا ہے ليکن عورت اپنے نفقہ اور سکنى کے حقوق سے کچھ عرصہ کيليے دست بردار ھو جاتى ہے جب تک کوئى موافق انتظام نہ ہو جاے. عقد نکاح ميں اس کا تذکرہ عموما نہيں ہوتا. براہ کرم رہنمائي فرمائيں؟\n

    جواب نمبر: 147947

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 399-615sd=7/1438

     (۱،۲) صورت مسئولہ میں وقتی نکاح کا جو طریقہ مذکور ہے، وہ غیر شرعی ہے، اسلام میں رشتہ نکاح عارضی اور وقتی نہیں ہوتا ہے ؛ بلکہ یہ ایک محترم اور دائمی رشتہ ہوتا ہے، جس کا ایک بڑا مقصد توالد و تناسل ہے، صورتِ مسئولہ میں اگرچہ نکاح کے وقت، وقت کی تحدید کا صراحتا ذکر نہ ہو؛ لیکن چونکہ عرف اور رواج کی وجہ سے فریقین کے علم میں پہلے سے یہ بات ہوتی ہے کہ کچھ دنوں کے بعد طلاق ہوجائے گی، اس لیے نتیجة یہ نکاح موقت ہی کی ایک شکل ہے، شریعت میں اس طرح نکاح کرنا حد درجہ مذموم ہے، تاہم اگر کسی نے پھر بھی دومسلمان گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لیا، تو، عورت حلال رہے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند