• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 145769

    عنوان: بیوی بچوں كا خرچ مطالبہ پورا ہونے پر موقوف كرنا؟

    سوال: ۱۸/ سال شادی کو ہو گئے، شوہر زید اپنی والدہ، بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہتا تھا، ۸/ مئی ۲۰۱۶ء (پانچ مہینے قبل) زید کی بیوی اپنے پانچ بچوں کے ساتھ راضی خوشی میکے گئی، ۱۵- ۲۰ دنوں تک شوہر اور بیوی کے درمیان سب کچھ نارمل تھا، ۲۴/ مئی ۲۰۱۶ء کو بیوی کے والد نے شوہر بیوی اور بچوں کو رہنے کے لیے علیحدہ گھر دینا چاہا، زید بیوی کے گھر میں رہنے کو تیار نہیں تھا اور اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو علیحدہ گھر دینے کو تیار تھا، یہی جھگڑے کی اصل وجہ بن گئی، اور بیوی نے زید سے کوئی تعلق باقی نہیں رکھا، زید نے کئی بار بیوی کو بچوں کے ساتھ گھر واپس بلانے کی کوشش کی لیکن اب تک بیوی پانچ بچوں کے ساتھ اپنے میکے میں ہی ہے، نکاح ابھی باقی ہے۔ اب بیوی کے والد کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو شوہر کے ذریعہ اذیت سے بچا رہے ہیں ظلم سے بچا رہے ہیں اس لیے رو ک رکھا ہے اور زید سے پانچ بچوں کے خرچ کا مطالبہ کر رہے ہیں، زید خرچ دینے کو تیار ہے لیکن زید کا مطالبہ ہے : (۱) ہر پندرہ دن میں ایک بار پانچوں بچوں کو پورے دن کے لیے زید کے گھر بھیجا جائے۔ (۲) بچوں کے متعلق (اسکول / مدرسہ) تعلیمی حق کی ذمہ داری زید اپنی ماں کے تحت رکھنا چاہتا ہے۔ دونوں مطالبہ پورے ہونے کے بعد ہی بچوں کی ضرورت کے مطابق بچوں کی خواہشات کے مطابق بچوں کے مطالبہ کے مطابق بچوں کے ارمانوں کے مطابق اور اپنی حیثیت کے مطابق زید اپنے بچوں کو خرچ دے گا، تاکہ بچوں کو کسی بھی طرح باپ کی کمی محسوس نہ ہو، لیکن یہ زید کا مطالبہ بیوی کے والد پورا نہیں کر رہے ہیں اور ناراضگی کے ساتھ ناگواری کے ساتھ ذلت کے ساتھ زید سے کہہ رہے ہیں کہ بچوں کو ان کے گھر آکر ہی ملو، ایسے حالات میں کیا زید کے دونوں مطالبہ صحیح ہیں؟ کیا زید یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دونوں مطالبہ پورے ہونے کے بعد ہی بچوں کو خرچ دیا جائے گا جب کہ نکاح ابھی باقی ہے؟

    جواب نمبر: 145769

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 088-047/H=2/1438

     

    اگر دو گاڑیاں بیچ سڑک پر آمنے سامنے کھڑی ہو جائیں اور دونوں گاڑیوں کے ڈرائیور ضدی ہوں اور کو ئی ایک دائیں بائیں اپنی گاڑی کو ہٹانے کے لیے تیار نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا یہ دونوں اپنی اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائیں گے ظاہر ہے ہرگز نہیں پہنچیں گے بلکہ ان ڈرائیوروں کے اڑیل رویہ سے گاڑیوں میں بیٹھنے اور سڑک پر چلنے والے لوگ بھی پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے، زوجین کے معاملات بڑے نازک معاملات ہوتے ہیں دونوں میں سے ہرایک دوسرے پر حقوقِ واجبہ کو معلوم کرکے ادائیگی کے مطالبات کو تھوپتا رہے تو بسا اوقات گھریلو زندگی بدمزہ ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بچے بلکہ دونوں طرف کے خاندانوں کا سکون و اطمینان برباد ہو جاتا ہے اور اگر دونوں طرف کے لوگ بالخصوص زوجین ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقِ عالیہ اور حُسنِ معاشرت کو ملحوظ رکھیں اور ہر ایک کا جذبہ یہ رہے کہ کوئی میرا حق ادا کرے یا نہ کرے مجھے بہرحال سامنے والے کا حق ادا کرنا ہے اور مجھ پر زیادتی بھی ہوگی تو مجھ کو عفو و درگذر سے کام لینا ہے اور کسی کے خلاف کو ئی کارروائی نہیں کرنی ہے کذب بیانی، غیبت، بہتان، حسد، چغلی وغیرہ سے مکمل اجتناب کرنا ہے تو برسوں کی خانہ جنگی منٹوں میں ختم ہوکر آپسی موٴدت و محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے بہشتی زیور میں زوجین کی حُسنِ معاشرت سے متعلق جو ہدایات ہیں سب کو چاہئے کہ ان کو حرزِ جان بنالیں ان کا بار بار بکثرت مطالعہ کریں سننے سنانے کا گھروں میں نظام بنائیں قرآن کریم حدیث شریف اکابر و اسلاف کی ہدایات و نصائح پر عمل کیا جائے نفسانیت اور اَنا پر لات مار کر تواضع، حلم، عفو، اخلاقِ فاضلہ کو اپنایا جائے تو کچھ ہی عرصہ میں ان شاء اللہ کایا پلٹ ہو جائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند