• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 10765

    عنوان:

    میں اپنی پسند سے کسی جگہ رشتہ کرنا چاہتا تھا مگر میرے والدین نہیں مانے۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا والدین کی خوشی کے لیے۔ پھر میرے والدین نے اپنے دوست کی بیٹی سے میرا رشتہ کردیا۔ سب گھر والے خوش تھے اور سب کی رضا مندی سے یہ رشتہ ہوا تھا۔ میں نے لڑکی کو دیکھا تک نہیں تھا رشتہ سے پہلے۔ شروع میں کسی نے نہیں کہا کہ ہم ناخوش ہیں اور رشتہ ہوگیا۔ پھر میری اس لڑکی سے بات شروع ہوگئی ، نیٹ پر فون پر کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ دوسال بعد ہماری شادی ہو جائے گی۔ابھی دو سال ہی ہوئے تھے میرے گھر والوں نے رشتہ توڑدیا۔ میرے گھر والوں نے بہت سی باتوں کو ذہن میں رکھا ہوا ہے کہ(۱)جب میرے والدین لڑکی کے گھر گئے انھوں نے وہ احترام نہیں دیا جو ایک لڑکے کے والدین کو دینا چاہیے۔ جیسے اچھی طرح نہیں ملے، جہیز کا مسئلہ ہے۔ اور میرے والدین سوچتے ہیں کہ ......

    سوال:

    میں اپنی پسند سے کسی جگہ رشتہ کرنا چاہتا تھا مگر میرے والدین نہیں مانے۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا والدین کی خوشی کے لیے۔ پھر میرے والدین نے اپنے دوست کی بیٹی سے میرا رشتہ کردیا۔ سب گھر والے خوش تھے اور سب کی رضا مندی سے یہ رشتہ ہوا تھا۔ میں نے لڑکی کو دیکھا تک نہیں تھا رشتہ سے پہلے۔ شروع میں کسی نے نہیں کہا کہ ہم ناخوش ہیں اور رشتہ ہوگیا۔ پھر میری اس لڑکی سے بات شروع ہوگئی ، نیٹ پر فون پر کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ دوسال بعد ہماری شادی ہو جائے گی۔ابھی دو سال ہی ہوئے تھے میرے گھر والوں نے رشتہ توڑدیا۔ میرے گھر والوں نے بہت سی باتوں کو ذہن میں رکھا ہوا ہے کہ(۱)جب میرے والدین لڑکی کے گھر گئے انھوں نے وہ احترام نہیں دیا جو ایک لڑکے کے والدین کو دینا چاہیے۔ جیسے اچھی طرح نہیں ملے، جہیز کا مسئلہ ہے۔ اور میرے والدین سوچتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کو لڑکی والوں نے اپنی طرف کرلیا ہے۔ لڑکی والوں کی طرف سے جب کہ ایسی بات بالکل نہیں ہے۔ میں اپنے والدین سے محبت کرتا ہوں،اورمیرے والدین سوچتے ہیں کہ لڑکی کے گھر والے بہت چالاک ہیں اچھے لوگ نہیں ہیں۔ ان میں بہت خرابیاں ہیں ہم ان کے ساتھ اب رشتہ نہیں رکھ سکتے۔ اب لڑکی کے والدین ، بہن سب معافی مانگ رہے ہیں ان سے مگر وہ معاف نہیں کررہے ہیں کسی کو۔ بس کوئی بڑی بات نہیں۔ دونوں گھرانوں میں کبھی لڑائی ہوئی ۔ تیس پینتیس سال سے جانتے ہیں ایک دوسرے کو مگر رشتہ ہونے کے بعد دو سال میں وہ سب تیس پینتیس سال کی محبت ختم ہوگئی۔اب میرا سوال یہ ہے کہ لڑکی والے معافی مانگنے کے لیے تیا رہیں،میرے والدین کے پاؤں پکڑ کر بھی،اور لڑکی والے ہر مانگ پوری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اورہر طرح سے معافی مانگ رہے ہیں کہ رشتہ نہ ٹوٹے، کیوں کہ ان کی بیٹی کا سوال ہے جو کہ دو سال سے امید پر ہے کہ میری شادی اسی لڑکے سے ہوگی۔ لڑکی والے اپنی ہر غلطی پر میرے سب گھر والوں سے معافی مانگ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگلی مرتبہ ایسی کوئی بات نہیں ہوگی ہماری طرف سے۔ ایک بار اس بات پر آپ لوگ بیٹھ کر بات کرلیں۔ مل لیں سب گلے شکوے کر لیں اور ہم کو معاف کردیں اور یہ رشتہ نہ ٹوٹے۔مگر میرے والدین بات کے لیے بھی راضی نہیں ہورہے ہیں۔ کیا اسلام میں معافی کا کوئی تصور نہیں ہے؟ میں ایک سال پہلے پاکستان سے سعودی آگیا تو میری شادی لیٹ ہوگئی تھی۔ رشتہ ٹوٹنے کے بعد بھی میری لڑکی سے بات ہوتی ہے مجھے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا میں لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟اسلام ہم کو کیا کہتاہے؟ ایک طرف والدین ہیں ان کو راضی کررہاہوں ، مگر وہ راضی نہیں ہوں گے۔ تو کیا میں اپنی مرضی سے کورٹ میرج کرسکتا ہوں لڑکی سے جب کہ والدین ناراض ہیں؟ جب کہ ایک طرف والدین ہیں ایک طرف لڑکی۔ برائے کرم میری رہنمائی فرماویں۔ آ پ کو مختصر لکھ دیا ہے۔ دونوں گھرانوں میں کوئی خاص بات نہیں ہے، یا پھر احترام نہ دینا ایک دوسرے کو اور کوئی خاص بات نہیں ہے ۔ اور جب کہ دونوں گھرانے دوست ہیں تیس پینتیس سال سے کیا میں والدین کو راضی کروں او راگر وہ نہیں ہوتے اور مجھے کہتے ہیں کہ جو مرضی ہے کرو، تو کیا میں لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ اسلام کیا کہتا ہے جب کہ لڑکی والے میرے والدین سے معافی بھی مانگ رہے ہیں ہر بات کے لیے۔ میرے والدین سوچتے ہیں کہ بیٹا نے لڑکی سے محبت کرنا شروع کردیا ہے اور اس کی طرف داری کرتا ہے ہم کو چھوڑ دیا ہے۔ اور محبت کی شادی کامیاب نہیں ہوتی۔ شروع میں رشتہ میں سب کی مرضی شامل تھی۔ میں بہت پریشان ہوں۔ برائے کرم میری رہنمائی فرمادیں کہ شریعت ہمیں کیا حکم دیتی ہے ؟

    جواب نمبر: 10765

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 200=22/ ل

     

    بالغ شخص کو شرعاً اختیار ہے کہ وہ اپنا نکاح والدین کی عدم اجازت کے بعد کفو میں کرسکتا ہے، البتہ والدین کو ناراض کرکے شادی کرنے میں نقصان ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ آپ کسی طرح والدین کو خوش کریں اس کے بعد شادی کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند