• عبادات >> جمعہ و عیدین

    سوال نمبر: 67030

    عنوان: جمعہ کے دن کو نماز کے بعد چندہ کرنا کیسا ہے؟

    سوال: جمعہ کے دن کو نماز کے بعد چندہ ہوتاہے ، کیا اس کے لیے سنت پڑھنے والوں کو روکنا جائز ہے یا ناجائز ؟ نیز امام کا ممبر پر بیٹھ کر چندے کا اعلان کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 67030

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1295-1291/N=11/1437 (۱، ۲):جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں ہیں، جیسے: ظہر، عصر، مغرب، عشا اور جمعہ، ان میں سلام کے بعد مختصر دعاسے فارغ ہوکر سنتوں میں مشغول ہوجانا مسنون وافضل ہے، طویل دعا یا اذکار میں لگ کر یا چندہ میں لگ کر سنتوں میں تاخیرکرنا خلاف سنت وبرا ہے ، اس سے سنتوں کا ثواب گھٹ جاتا ہے ، نیز بعض مرتبہ لوگ نماز میں مسبوق ہوتے ہیں اور چندہ کرنے والوں کی وجہ سے ان کی نمازوں میں خلل ہوتا ہے ؛ اس لیے جمعہ کی نماز کے بعد سنن موٴکدہ سے پہلے چندہ کرنا اور لوگوں کو سنتوں سے روکنا اور امام اس وقت ممبر پر بیٹھ کر چندے کا اعلان کرنا وغیرہ ہرگز مناسب نہیں؛ بلکہ اذان خطبہ سے پہلے چندہ کیا جائے یا نماز کے بعد ایک دو آدمی مسجد کے دروازے کے پاس کھڑے ہوجائیں اورمسجد کی ضروریات کے لیے چندہ کرلیا کریں۔ فإن کان بعدھا أي: بعد المکتوبة تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: اللھم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام، ویکرہ تأخیر السنة عن حال أداء الفریضة بأکثر من نحو ذلک القدر ……وقد یوفق بأن تحمل الکراھة علی کراھة التنزیہ ومراد الحلواني عدم الإساء ة ……وھو قریب من المکروہ کراھة التنزیہ فتحصل منہ أن الأولی أن لا یقرأ الأوراد قبل السنة، ولو فعل لا بأس بہ ولا تسقط السنة بذلک حتی إذا صلاھا بعد الأوراد تقع سنة موٴداة لا علی وجہ السنة……فالحاصل أن المستحب في حق الکل وصل السنة بالمکتوبة من غیر تأخیر إلا أن الاستحباب في حق الإمام أشد حتی یوٴدي تأخیرہ إلی الکراھة لحدیث عائشة بخلاف المقتدي والمنفرد الخ (غنیة المستملي، ص ۳۴۱- ۳۴۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وونحوہ فی الدر المختار ورد المحتار (کتاب الصلاة، آخر باب صفة الصلاة، ۲: ۲۴۶، ۲۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولو تکلم بین السنة والفرض لا یسقطھا ولکن ینقص ثوابھا ……وکذا کل عمل ینافی التحریمة علی الأصح، قنیة (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الصلا، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۶۱)، قولہ:”ولو تکلم الخ“‘: وکذا لو فصل بقراء ة الأوراد الخ (رد المحتار)، القیام إلی أداء السنة التي تلی الفرض متصلاً بالفرض مسنون غیر أنہ یستحب الفصل بینھما کما کان علیہ السلام إذا سلم یمکث قدر ما یقول اللھم أنت السلام ومنک السلام الخ ثم یقوم إلی السنة ، قال الکمال: وھذا ھو الذي ثبت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم من ا؛أذکار التي توٴخر عنہ السنة ویفصل بہ بینہا وبین الفرض اھ ……وقال الکمال عن شمس الأئمة الحلواني إنہ قال: لا بأس بقراء ة الأوراد بین الفریضة والسنة فالأولی تأخیر الأوراد عن السنة فھذا ینفی الکراھة ویخالفہ ما فی الاختیار: کل صلاة بعدھا سنة یکرہ القعود بعدھا والدعاء ؛ بل یشتغل بالسنة کی لا یفصل بین السنة والمکتوبة الخ (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي ص ۳۱۱ - ۳۱۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،وفی الحجة: الإمام إذا فرغ من الظھر والمغرب والعشاء یشرع فی السنة ولا یشتغل بأدعیة طویلة کذا فی التتارخانیة (الفتاوی الھندیة ۱: ۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، والمختار عند الحنفیة أن یشتغل بعد أداء المکتوبة بالسنة، ویکرہ أن یشتغل بالدعاء والتسبیح قبل أداء السنة ، والمختار عند الأکثرین غیر الحنفیة أن یشتغل بعد المکتوبة بالذکر الماثورة ثم ینتقل کذا في فتح الباري والقسطلاني ( العقائد السنیة ،قبیل آخر الکتاب)، وانظر أیضاً فتح القدیر (کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل،۱: ۳۱۳، ۳۱۴، ط:مصر) ومعارف السنن (۳: ۱۱۸، ۱۱۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) وبہشتی زیور (۱۱: ۳۲، ۳۳، رقم المسألہ: ۷، ۸) والفتاوی المحمودیة (۵: ۶۸۱، ط: دابیل) وغیرھا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند