عبادات >> جمعہ و عیدین
سوال نمبر: 47451
جواب نمبر: 47451
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1272-1032/H=11/1434-U عید کے دن غسل کرنا ، مسواک کرنا، خوشبو لگانا، عیدگاہ کو ایک راستہ سے جانا دوسرے سے آنا ، نماز عید کو خشوع خضوع اجتماعا ادا کرنا خطبہ کو پوری توجہ سے سننا حتی کہ اگر آواز نہ بھی پہنچتی ہو تب بھی خاموش بیٹھ کر خطبہ کی طرف متوجہ رہنا یہ امور ثابت ہیں۔ ان کے علاوہ رواجی امور بعض مباح کے درجہ میں ہیں، مثلاً اچھا کھانا بنالینا غربائ فقرائ مساکین اعزہ اقربائ رشتہ دار متعلقین احبائ کو کھلادینا عید کا دن خوشی کا دن ہے او ران جیسے امور سے خوشی کا اظہار ہے، پس فی نفسہ ان میں کچھ مانع نہیں، بعض امور خلافِ سنت اور بدعتِ مکروہہ کے حد میں ہیں جیسے مصافحہ معانقہ کہ ان کو احکامِ عید کا جزو اعظم سمجھا جاتا ہے حالانکہ معتبر کتب فقہ وفتاوی میں صراحت ہے کہ نمازوں کے بعد مصافحہ کو ایجاد کرنے والے رافضی لوگ ہیں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق صراحت ہے کہ بعد نماز عید مصافحہ نہ کیا کرتے تھے، الغرض مصافحہ معانقہ کا یہ موقعہ تجویز کرنا حکم شریعت پر زیادتی ہے، جس طرح پورا کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنا بلاشبہ موجب اجر وثواب ہے جتنی کثرت پڑھنے کی کوئی شخص کرسکے اس کے لیے بالیقین سعادت دارین کا سبب ہے لیکن اگر مؤذن کو کوئی شخص پابند کرے کہ تم آخری کلمہ ادھورا پڑھ کر اذان کیوں ختم کرتے ہو؟ پورا کلمہ پڑھ کر اذان ختم کیا کرو تو ظاہر ہے کہ ہرمسلمان اس کو غلط کہے گا کیوں؟ اس لیے کہ اذان کے اخیر میں محمد رسول اللہ ثابت نہیں، اسی طرح مصافحہ کو بھی سمجھ لیں، شریعت مطہرہ میں اولِ ملاقات یا رخصت ہوتے وقت مصافحہ ثابت ہے یعنی اول سلام اور اس کا جواب ہو پھر مصافحہ کیا جائے، نمازوں کے بعد اس کی مشروعیت نہیں، نیز معانقہ میں تو اور بھی کچھ تفصیل ہے۔ حاصل یہ کہ عید کے مسنونات ومستحبات میں مصافحہ ومعانقہ شامل نہیں بلکہ خلاف سنت ہونا ظاہر ہے، پس عید کی وجہ سے اس کے رواج کو ترک کرنا چاہیے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند