متفرقات >> اسلامی نام
سوال نمبر: 168970
جواب نمبر: 168970
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:591-475/sn=6/1440
”محمد“ نام رکھنا بلا کراہت درست ہے ، اس میں کوئی بے ادبی کی بات نہیں ہے ، بس پکارتے وقت اسے بگاڑ کر نہ پکارنا چاہئے ؛ اس لئے آپ اپنی خواہش کے مطابق ”محمد“ نام تجویز کر سکتے ہیں؛ باقی اگر ”محمد عوف“رکھنا چاہیں تو یہ بھی رکھ سکتے ہیں، ”عوف“متعدد صحابہ کرام کا نام رہاہے ۔ (دیکھیں: اسد الغابة)،اور لغت میں اس کا معنی ہے حالت ( القاموس الوحید)۔
(أحب الأسماء إلی اللہ تعالی عبد اللہ وعبد الرحمن)....وتفضیل التسمیة بہما محمول علی من أراد التسمی بالعبودیة، لأنہم کانوا یسمون عبد شمس وعبد الدار، فلا ینافی أن اسم محمد وأحمد أحب إلی اللہ تعالی من جمیع الأسماء، فإنہ لم یختر لنبیہ إلا ما ہو أحب إلیہ ہذا ہو الصواب ولا یجوز حملہ علی الإطلاق اہ. وورد " من ولد لہ مولود فسماہ محمدا کان ہو ومولودہ فی الجنة رواہ ابن عساکر عن أمامة رفعہ قال السیوطی: ہذا أمثل حدیث ورد فی ہذا الباب وإسنادہ حسن اہ(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 9/598،زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند