• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 6002

    عنوان:

    جیسا کہ قرآن میں متعدد جگہ پر مذکور ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اختیار دے دیا ہے یا تو وہ اچھے عمل کرے یا برے، اور بدلہ ان کے عمل پر دیا جائے گا۔ پریشانی یہ ہے کہ بہت سارے لوگ صحیح راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو کیا ہم اپنا اختیار محدود نہیں رکھتے ہیں۔ برائے کرم ہماری رہنمائی کریں۔ وہ کون سی چیزیں ہیں جن کواللہ پر چھوڑ دینا چاہیے اور کون سی چیزیں بذات خود کرنی چاہئیں۔ ہم چیزیں اللہ پر چھوڑدیتے ہیں، جن کو ہمیں بذات خود کرنی چاہئیں اور ان چیزوں کو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ کے اوپر ہیں، اس لیے ہم شرک کرتے ہیں۔ اسلام میں دعا کے تصور کے بارے میں بھی بتائیں، ہم دعا کیوں مانگتے ہیں؟ اگر ہم وہ کام نہ کریں، دعا بے سود ہوگی۔

    سوال:

    جیسا کہ قرآن میں متعدد جگہ پر مذکور ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اختیار دے دیا ہے یا تو وہ اچھے عمل کرے یا برے، اور بدلہ ان کے عمل پر دیا جائے گا۔ پریشانی یہ ہے کہ بہت سارے لوگ صحیح راستہ چھوڑ دیتے ہیں تو کیا ہم اپنا اختیار محدود نہیں رکھتے ہیں۔ برائے کرم ہماری رہنمائی کریں۔ وہ کون سی چیزیں ہیں جن کواللہ پر چھوڑ دینا چاہیے اور کون سی چیزیں بذات خود کرنی چاہئیں۔ ہم چیزیں اللہ پر چھوڑدیتے ہیں، جن کو ہمیں بذات خود کرنی چاہئیں اور ان چیزوں کو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ کے اوپر ہیں، اس لیے ہم شرک کرتے ہیں۔ اسلام میں دعا کے تصور کے بارے میں بھی بتائیں، ہم دعا کیوں مانگتے ہیں؟ اگر ہم وہ کام نہ کریں، دعا بے سود ہوگی۔

    جواب نمبر: 6002

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 967د=52/ک

     

    بندوں کے لیے اللہ تعالی نے راہ ہدایت متعین فرمادی ہے جس طرح کی راہ ضلالت کی نشاندہی فرمائی ہے۔ کامیابی اورناکامی کے اسباب و طرق بھی مقرر فرمادیئے ہیں اورانسان کوان اسباب و طرق کے اختیار کرنے کی قدرت دی ہے لہذا انسان پر ہدایت وکامیابی کے اسباب و طرق کا اختیار کرنا واجب ہے اور ضلالت وناکامی کے اسباب وطرق سے اجتناب کرنا لازم۔ جو لوگ بااختیار خود صحیح راستہ کے تارک ہیں وہ عنداللہ مجرم وجواب دہ ٹھہریں گے۔ البتہ اسباب و طرق اختیار کرنے کے بعد نتیجہ کا پیدا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے اس لیے اسباب خود اختیار کرکے نتائج اللہ تعالی پر چھوڑنا چاہیے بغیراسباب ظاہری اختیارکئے معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑنا شیطانی فریب ہے۔

    (۲) دعا کاکلمہ قرآن و حدیث میں دیا گیا ہے دعاکی دین میں بڑی اہمیت ہے جیسا کہ احادیث میں ذکرکیا گیا ہے اسباب اختیار کرکے اللہ سے دعا کرنا چاہیے۔ کبھی اسباب کا اختیار کرنا آدمی کے بس میں نہیں ہوتا ایسے وقت میں دعا اور بھی ضروری ہوجاتی ہے کیوں کہ اللہ تعالی مسبب الاسباب ہیں یعنی سبب کا پیدا کرنا بھی انھیں کے قبضہ میں ہے۔ اسباب موجود ہونے کی صورت میں اعلی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے یہی ہے کہ اسباب اختیارکر کے دعا کرے لیکن کوتاہی یا کم ہمتی سے بدون اسباب اختیار کئے ہوئے دعاکرنا بالکل بے سود نہیں ہوتا بلکہ اس وقت دعا کرنے کا مطلب ہوتاہے کہ اسباب کا اختیار کرنا میرے لیے آسان کردے یا اسباب کے اختیارکرنے کی مجھے توفیق دے دے۔کیوں کہ منجملہ اسباب ظاہری کے ایک سبب کامیابی دعا بھی ہے اوراگر کوئی شخص بغیر اسباب کے اختیار کئے ہوئے دعا اس خیال سے کرتا ہے کہ اللہ تعالی بغیر سبب کے مجھے یہ چیزیں دے دیں تو اگرچہ اللہ تعالی کو اس پرقدرت ہے لیکن اس خیال سے دعا کرنا سخت بے ادبی کی بات ہے اور جہل و کم عقل کا نتیجہ ہے جیسے کہ کوئی شخص شادی کرنے کا ارادہ نہ کرے اوراللہ تعالی سے اولاد کی دعا کرے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند