• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 4323

    عنوان:

    یہ مسئلہ پہلے بھی آپ نے بتایا ہے لیکن آپ کے دلائل ٹھیک نہیں ہیں وہ ہے ?مسئلہ وسیلہ?۔ میں نے پہلے بھی ذکرکیا تھا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث میں دعا کا وسیلہ ہے نہ کہ ذات کا،لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ بات کو سمجھتے نہیں حالانکہ جناب ابوحنیفہ رحمة اللہ نے بھی اس کو مکروہ تحریمی کہا ہے (شرح صدر) اور خطیب مکہ مکرمہ نے بھی اس کو ناجائز کہا ہے اور جس جس مستند عالم سے میں نے پوچھا ہے تو یہی کہا کہ وسیلہ بالذات غلط ہے دیوبند کی شان والی جماعت (توحید و سنت) کی بھی یہ رائے ہے اور حنفیوں کے نزدیک وسیلہ جائز ہے صرف اور صرف (۱) اللہ جل جلالہ کے ناموں کا، (۲) نیک اعمال کا، (۳) کسی کی دعا کا۔

    سوال:

    یہ مسئلہ پہلے بھی آپ نے بتایا ہے لیکن آپ کے دلائل ٹھیک نہیں ہیں وہ ہے ?مسئلہ وسیلہ?۔ میں نے پہلے بھی ذکرکیا تھا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث میں دعا کا وسیلہ ہے نہ کہ ذات کا،لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ بات کو سمجھتے نہیں حالانکہ جناب ابوحنیفہ رحمة اللہ نے بھی اس کو مکروہ تحریمی کہا ہے (شرح صدر) اور خطیب مکہ مکرمہ نے بھی اس کو ناجائز کہا ہے اور جس جس مستند عالم سے میں نے پوچھا ہے تو یہی کہا کہ وسیلہ بالذات غلط ہے دیوبند کی شان والی جماعت (توحید و سنت) کی بھی یہ رائے ہے اور حنفیوں کے نزدیک وسیلہ جائز ہے صرف اور صرف (۱) اللہ جل جلالہ کے ناموں کا، (۲) نیک اعمال کا، (۳) کسی کی دعا کا۔

    جواب نمبر: 4323

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 629=671/ ل

     

    توسل خواہ احیاء سے یا اموات سے ہو یا اعمال سے، اپنے اعمال سے ہو یا غیر کے اعمال سے سب جائز ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ والی حدیث میں تو صراحت ہے : انا نتوسل الیک بعم نبینا ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کا وسیلہ لے کر حاضر ہیں الخ ․․․․․․․یہی وجہ ہے کہ غیر مقلدین کے امام شوکانی نے باب الاستسقاء بذوی الصلاح قائم کیا ہے اورحدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ویستفاد من قصة العباس استحباب الاستشفاع بأہل الخیر والصلاح و أہل بیت النبوة (نیل الأوطار:۲/۳۹۹) علاوہ ازیں اگر اس کو دعا کا وسیلہ مان لیا جائے تو بھی قائلین جواز وسیلہ کے پاس اور بھی دلائل ہیں مثلاً: عن عثمان بن حنیف ان رجلاً ضریرالبصر أتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: إدع اللّٰہ أن یعافینی قال: ان شئت دعوت وان شئت صبرت فہو خیر لک قال: فادعہ قال:فأمرہ أن یتوٴضا فیحسن وضوء ہ ویدعوا بہذا الدعاء ?اللہم إنی أسألک و أتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمة انی وجہت بک إلی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی لی اللہم فشفعہ فی (ترمذی شریف:۲/۱۹۷)۔ یہ واقعہ تو حیات طیبہ کا تھا مگر انھوں نے بعد وفات بھی ایک شخص کو یہی ترکیب اور دعا بتلائی تھی جس کی ایک ضرورت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق تھی اور وہ توجہ نہ فرماتے تھے ایک شخص نے اس پر عمل کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ ضرورت پوری فرمادی پھراس شخص نے عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے میری شفارش کردی اس پرانھوں نے وہی ترمذی والی رویات سنائی۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر)۔ علامہ زرقانی نے شرح مواہب ۱۲۱/۲۲۲/ ط مکة المکرمہ میں لکھا ہے: وأما التوسل بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد موتہ فی البرزخ فہو أکثر من أن یحصی أو یدرک باستسقاء وفی کتاب مصباح الظلام فی المستغیثین غیر الأنام للشیخ ابی عبداللّٰہ النعمان طرف من ذالک اس کے بعد اپنے واقعات اور تجربات لکھتے ہیں کہ بیماری اور مصیبت کے دفع کرنے میں کیسی تاثیر پائی علامہ آلوسی نے روح المعانی میں توسل کرنے والوں کی اغلاط پر متنبہ کرنے کے بعد لکھا ہے : بعد ہذ کلہ أنا لا أری بأسا فی التوسل الی اللّٰہ تعالی بجاہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عند اللّٰہ حیا ومیتا (روح المعانی:۶/۱۲۸، داراحیاء التراث العربی) دوسری جگہ لکھتے ہیں:التوسل بجاہ غیر النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لا بأس بہ ان کان المتوسل بجاہہ مما علم أن لہ جاہاً عنداللّٰہ تعالی کالمقطوع بصلاح ولایتہ (المصدرالسابق بتمامہ)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند