• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 3717

    عنوان:

    سلفی علماء کا خیال ہے کہ توحید اسلام کا ایک بنیادی اور اہم پہلو ہے، اس لیے ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ درج ذیل تین توحید کو صحیح سے سیکھے، توحید الربوبیة، توحید الوہیة اور توحید الاسماء و الصفات۔ اشعریوں نے توحید کی تیسری قسم( توحید الاسماء و الصفات) کو سمجھنے میں غلطی کی ہے چونکہ وہ وہ اللہ کی صفات کے نام سے اس کی تشریح کرتے ہیں، دیوبندی بھی اشعری عقائدکا ایک جز ہے، وہ بھی ہم پر تنقید کرتے ہیں۔ سلفیوں کا کہناہے کہ قرآنی آیات سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ اللہ تعالی ساتویں آسمان پر ہے اور اللہ کا عرش بھی اس کے منصب اور جاہ و جلا ل کے حساب سے سب سے اوپر ہے مگر اشعری اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لیے استوا ء کومانیں کیونکہ قرآن میں اس کا ذکر ہے اور بغیر کسی تاویل ، تعبیر ، تمثیل اور تعلیل کے اس کو اپنے ظاہر معنی کے مطابق سمجھیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ سلفیوں نے جو اللہ تعالی کے بارے کہا ہے کہ کیا وہ درست ہے ؟اور کیا یہ اہل سنت و الجماعت کے مطابق ہے ؟ براہ کرم، اس مسئلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں ، مغرب میں مسلمانوں کے درمیان اس پر ایک دہائی سے بحث چل رہی ہے۔

    سوال:

    سلفی علماء کا خیال ہے کہ توحید اسلام کا ایک بنیادی اور اہم پہلو ہے، اس لیے ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ درج ذیل تین توحید کو صحیح سے سیکھے، توحید الربوبیة، توحید الوہیة اور توحید الاسماء و الصفات۔ اشعریوں نے توحید کی تیسری قسم( توحید الاسماء و الصفات) کو سمجھنے میں غلطی کی ہے چونکہ وہ وہ اللہ کی صفات کے نام سے اس کی تشریح کرتے ہیں، دیوبندی بھی اشعری عقائدکا ایک جز ہے، وہ بھی ہم پر تنقید کرتے ہیں۔ سلفیوں کا کہناہے کہ قرآنی آیات سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ اللہ تعالی ساتویں آسمان پر ہے اور اللہ کا عرش بھی اس کے منصب اور جاہ و جلا ل کے حساب سے سب سے اوپر ہے مگر اشعری اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لیے استوا ء کومانیں کیونکہ قرآن میں اس کا ذکر ہے اور بغیر کسی تاویل ، تعبیر ، تمثیل اور تعلیل کے اس کو اپنے ظاہر معنی کے مطابق سمجھیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ سلفیوں نے جو اللہ تعالی کے بارے کہا ہے کہ کیا وہ درست ہے ؟اور کیا یہ اہل سنت و الجماعت کے مطابق ہے ؟ براہ کرم، اس مسئلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں ، مغرب میں مسلمانوں کے درمیان اس پر ایک دہائی سے بحث چل رہی ہے۔

    جواب نمبر: 3717

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 381/ ل= 359/ ل

     

    صفاتِ باری عز اسمہ کے سلسلے میں جمہور محدثین و سلف کا مسلک یہ ہے کہ صفاتِ باری کو اتباعا للنصوص مانا جائے لیکن اس کے معنی مراد اور اس کی کیفیت کے بارے میں توقف کیا جائے اور اس میں خوض نہ کیا جائے: ھذا ھو الذي علیہ جمھور السلف من حمل الاستواء علی الحقیقة المبھمة لنا.... ثم تفویضھا إلی اللہ تعالیٰ والمنع عن الخوض فیھا (حاشیة بیان القرآن: ج۴ ص۱۹) اس کے علاوہ ایک مذہب حافظ ذہبی، ابن تیمیہ، ابن القیم رحمہم اللہ وغیرہم کا ہے، وہ استواء و دیگر صفات کے حقیقی معنی مراد لیتے ہیں اور اس کی کیفیت سے توقف کرتے ہیں، جب کہ جمہور محدثین کے قول کا حاصل معلوم ہوتا ہے کہ وہ استواء و دیگر صفات کی تشریح ہی سے توقف فرماتے ہیں البتہ یہ فرق تشبیہ اور تنزیہ کا فرق نہیں بلکہ تنزیہ ہی کی تعبیر کا فرق ہے، لہٰذا دونوں کے درمیان فرق کرکے ایک دوسرے کو نشانہ ملامت بنانا درست نہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے مسائل میں سلامتی کا راستہ جمہور سلف ہی کا ہے جو ان الفاظ کی تشریح ہی سے توقف کرتے ہیں کیونکہ تشریح کا آغاز ہوتے ہی انسان اس پرخار وادی میں پہنچ جاتا ہے جہاں افراط و تفریط سے دامن بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند