• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 19173

    عنوان:

     نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں؟

    سوال:

    قرآن میں مختلف مقامات میں انسان کی دو زندگیوں اور دو اموات کا ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن کی سورہٴ زمر آیات نمبر ۳۱ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا بھی ذکر ہے۔ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں، کچھ کہتے ہیں وہ ہرجگہ آجاسکتے ہیں اور ایک وقت میں کئی مقامات پر بھی جاسکتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ صرف قبر کہ قریب لوگوں کو سنتے ہیں۔ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور اس کہ بعد دوبارہ زندہ ہوں گے جب کہ نیک روحوں کو علیین میں رکھا جاتا ہے۔ اور ان کو جنت کی سیر بھی کروائی جات یہے، تو کیا ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صرف دنیا کی قبر میں۔ وہ جنت میں جاتے ہیں تو کب جب کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہرانسان جو قبر کے پاس جاتا ہے اور درود پڑھتا ہے تو اس کا درود خود سنتے ہیں۔ جب وہ سب کا درود سنتے ہیں تو وہ ہیں اور نہیں جاتے ہوں گے۔ کیا وہ قبر میں سوتے جاگتے ہیں لیکن کب؟ ہمیں کیسے علم ہوگا کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تین زندگیاں اور تین اموات ملیں گی، کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام درود فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے؟ مفتی صاحب یہ وہ سوال ہیں جو مجھ سے میرے دوست نے پوچھے ہیں، جس کی وجہ سے مجھآ حیات اور موات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر مشکل میں ڈال دیا۔ برائے مہربانی میری قرآن اور سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 19173

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 281=243-3/1431

     

    قرآن کی جس آیت کریمہ سے حضور کی وفات کا علم ہوتا ہے اس سے مراد حیاتِ دنیوی کی وفات ہے یعنی دوسروں کی طرح آپ پر بھی وفات طاری ہوگی لیکن اس کے بعد آپ پر برزخی حیات کے اعتبار سے زندہ ہیں ?کما في إعلاء السنن فتلک حیاة أخری لا من جنس الحیاة الدنیویة فھو میت باعتبار ہذہ الحیاة الدنیویة حيٌ باعتبار تلک الحیاة البرزخیة المغایرة لھذہ الحیاة? لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنی قبر مبارک میں باحیات ہیں ان کی بات صحیح ہے، بہت سی احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام اپنی قبر میں زندہ ہیں جیسا کہ امام سیوطی علیہ الرحمة نے اپنی کتاب الحاوی للفتاویٰ میں رسالہ ?انباء الأذکیاء بحیاة الأنبیاء? میں تفصیلاً ذکر کیا ہے، البتہ جو لوگ کہتے ہیں کہ حضور ہرجگہ آتے جاتے ہیں، ان کی بات احادیث و قرآن کے مخالف ہے: ?کما قال المفتي عبدالعزیز بن باز ہذا من أعظم الباطل وأقبح الجہل فإن الرسول لا یخرج من قبرہ قبل یوم القیامة ولا یتصل بأحد من الناس ولا یحضر اجتماعہم بل ہو مقیم في قبرہ إلی یوم القیامة? اور آپ نے جو لکھا کہ جب حضور کی روح اعلیٰ علیین میں ہے تو آپ قبر اطہر میں کس طرح درود وغیرہ سنتے ہوں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالمِ برزخ کو عالمِ دنیا پر قیاس کرنا جائز نہیں، ?قیاس الغائب علی الشاہد لا یجوز? عالم دنیا میں روح کے جسم سے جدا ہونے کے بعد روح کا جسم سے کوئی تعلق نہیں رہتا، بخلاف عالم برزخ کے وہاں جدائیگی کے بعد ایک قسم کا تعلق باقی رہتا ہے: ?کما قال ابن القیم في کتابہ کتاب الروح الرابع تعلقہا بہ في البرزخ فإنہا وإن وتجردت عنہ فإنہا لم تفارقہ فراقًا کلیًا بحیث لا یبقی بھا التفات إلیہ البتة? (کتاب الروح، المسألة السادسة ہل الروح تعاد إلی المیت في قبرہ وقت السوٴال أم لا، ص:۶۰، مکتبہ فاروقیہ پشاور)

     لہٰذا اگر آپ علیہ السلام درود شریف وغیرہ سنتے ہیں تو اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں۔ نوٹ: اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے امام سیوطی کا رسالہ ?شرح الصدور، انباء الأذکیاء بحیاة الأنبیاء? ابن قیم علیہ الرحمة کی ?کتاب الروح? اور مولانا یوسف صاحب کا رسالہ ?مسئلہ حیات النبی ? کا مطالعہ کیا جائے جو ?آپ کے مسائل اور ان کا حل? کی دسویں جلد میں مذکور ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند