• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 157199

    عنوان: وسیلے کی شرعی حیثیت

    سوال: حضرت مفتی صاحب! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگ سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 157199

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:305-220/sd=3/1439

    اہل السنة والجماعة کاعقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء ، اولیاء اور مشائخ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے ، ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی، مثلاً یہ کہے کہ اے اللہ میں فلاں بزرگ کے وسیلے سے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری دعا قبول فرمالیں اور میری ضرورت پوری فرمادیں، المہند علی المفند میں ہے : عندنا وعند مشایخنا یجوز التوسل فی الدعوات بالأنبیاء والصالحین من الأولیاء والشہداء والصالحین فی حیاتہم وبعد وفاتہم بأن یقول فی دعائہ اللہم إنی أتوسل إلیک بفلان أن تجیب دعوتی وتقضی حاجتی إلی غیر ذالک الخ (المہند علی المفند، ص: ۴) حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ دعا کردیجئے کہ میری بینائی ٹھیک ہوجائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی ہوتو دعا کردوں اور اگر چاہو تو صبر اختیار کرو اور صبر تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تو صحابی نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آپ دعا ہی کردیجئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا کرو: اللہم إنی أسئلک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبی الرحمة إنی توجہت بک إلی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی لی، اللہم فشفعہ فی۔ یعنی اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، (اے نبی) میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا؛ تاکہ میری اس ضرورت کو پورا کردیا جائے ، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی سفارش قبول فرما۔ عن عثمان بن حنیف، أن رجلا ضریر البصر أتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال: ادع اللہ أن یعافینی قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فھو خیر لک قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوئہ ویدعو بھذا الدعاء: اللھم إنی أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبی الرحمة، إنی توجھت بک إلی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی لی، اللھم فشفعہ فی : قال الترمذی: ھذا حدیث حسن صحیح غریب (ترمذی، رقم: ۳۵۵۸، باب بلا عنوان) قال السبکی: یحسن التوسل بالنبی إلی ربہ ولم ینکرہ أحد من السلف ولا الخلف إلا ابن تیمیہ فابتدع ما لم یقلہ عالم قبلہ (شامی: /۵۶۹/۹کتاب الحظر والإباحة، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند