• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 1445

    عنوان:

    کیا نبی یا ولی میری بات سن سکتے ہے یا مجھے اللہ سے قریب کرسکتے ہیں؟

    سوال:

    میں اپنے عقیدہ کے سلسلے میں بہت متردد ہوں۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ اولیاء اللہ سے بھی مانگ سکتے ہیں، وہ اللہ سے بہت قریب ہوہتے ہیں ، اللہ نے اس کو بھی عطاء و بخشش کا کچھ اختیار دیا ہوا ہے۔ اللہ سے براہ راست نہیں مانگ سکتے، بلکہ کسی نبی یا ولی کے وسیلہ سے مانگ سکتے ہیں جس طرح حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی پریشانیوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لیا تھا۔ رہ نمائی فرمائیں۔ کیا نبی یا ولی میری بات سن سکتے ہے یا مجھے اللہ سے قریب کرسکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 1445

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 407/ ل= 407/ ل

     

    اس میں دو چیزیں الگ الگ ہیں: (۱) وسیلہ (۲) استغاثہ

    وسیلہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی نبی یا ولی کے واسطے سے دعا کریں اور یہ کہیں ?اے اللہ فلاں بندے یا فلاں نبی کے طفیل میری دعا قبول فرما ?یہ جائز ہے حدیث شریف میں ہے: عن عثمان بن حنیف أن رجلاً ضریر البصر أتی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: أدع اللّہ أن یعافیني قال: إن شئت دعوت وإن شئت صبرت فھو خیر لک قال: فادعہ قال: فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوء ہ ویدعو بہذا الدعاء اللّھم إني أسئلک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة إني توجھت بک إلی ربي في حاجتي لتقضي لي أللّھم فشفعہ فيّ (ترمذي شریف: ج۲ ص۱۹۸) اور استغاثہ کا مطلب یہ ہے کہ براہِ راست اسی بزرگ کو حاجت روا سمجھ کر اس سے سوال کیا جائے، یہ ناجائز و حرام ہے، قرآن شریف میں ہے: وَلاَ تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنْفَعُکَ وَلاَ یَضُرُّکَ ۔۔۔۔ الآیة اور روح المعانی میں ہے: إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللّہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منھم والأموات وغیرھم مثل یا سیدي فلان ?أغِثْنِيْ? ولیس ذلک من التوسل المباح بشيء ۔۔۔ وقد عدہ أناس من العلماء شرکًا (روح المعاني: ج۴ ص۱۲۸، ط: إمدادیہ، پاکستان)

    حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں جو ہے وہ از قبیل وسیلہ ہے از قبیل استغاثہ نہیں۔ جہاں تک مردوں کے سننے کا مسئلہ ہے تو اس میں اختلاف ہے، بعض سماع کے قائل ہیں اور بعض عدم سماع کے ؛ لیکن یہ عقیدہ رکھنا کہ فلاں بزرگ یا ولی مجھے اللہ کے قریب کردیں گے، ناجائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند