• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 8250

    عنوان:

    میں پاکستان میں رہتا ہوں۔میری عمر ۸۳ سال ہے۔میرے پاس ایک دوکان اور ایک فلیٹ ہے،جس میں میں اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتا ہوں۔۸ سال سے اپنی دوکان میںپکوان ہاوس کھول رکھا تھا۔مگر مسلسل مہنگائی کی وجہ سے آمدنی کم اور نقصان زیادہ ہوتا رہا۔مجبوراً پکوان ہاوس بند کرنا پڑا۔ کچھ لوگوں کا قرضہ بھی چڑھ گیا ہے۔گاڑی بھی بیچ دی تاکہ قرضہ اتر سکے۔پھر بھی قرضہ پورا نہ اتر سکا۔ابھی فی الحال دوکان کرائے پر دیدی ہے۔دوکان میں دوبارہ کاروبار کرنے کا سوچتا ہوں مگر رقم موجود نہیں ۔مجھے مرگی جیسی بیماری بھی ہے۔جس میں میں چلتے چلتے راستہ بھول جاتا ہوں،یا میں کہاں موجود ہوں یہ بھی بھول جاتا ہوں اکثر۔اور کبھی مرگی جیسے دورے بھی پڑتے ہیں۔اکثر دوکان پر بھی ایسا ہوچکا ہے ۔کافی علاج کروایا مگر فائدہ نہ ہوسکا۔قسطوں پر موٹر سائیکل بھی لی ہے مگر ڈاکٹر منع کرتے ہیں کسی بھی قسم کی ڈرائیونگ سے۔بچوں کی تعلیم ،گھر کا خرچ چلانے کے لئے کرایہ کسی طرح بھی پورا نہیں پڑتا۔والد صاحب مدد کررہے ہیں فی الحال تو مگر اب ان کے پاس بھی مزید گنجائش نہیں۔(دوکان اور فلیٹ بھی ان ہی کا دِلایا ہوا ہے)۔کچھ مدد دیگر رشتے دار بھی کردیتے ہیں کبھی کبھار،مگر ان کا سارا پیسہ فکس ڈپوزٹ یا انشورنس والا ہے۔میری اور میری بیوی کی خواہش ہے کہ ہم سود نہ کھائیں،نہ ہی کسی سے مانگنے کے محتاج رہیں۔(رشتہ داروں یا والد صاحب وغیرہ سے) میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورتحال میں میں اپنی دوکان بیچ کر پیسہ بینک میں جمع کرواسکتا ہوں۔جس کی ماہانہ آمدنی سے میرا گھر چل سکے؟

    سوال:

    میں پاکستان میں رہتا ہوں۔میری عمر ۸۳ سال ہے۔میرے پاس ایک دوکان اور ایک فلیٹ ہے،جس میں میں اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتا ہوں۔۸ سال سے اپنی دوکان میںپکوان ہاوس کھول رکھا تھا۔مگر مسلسل مہنگائی کی وجہ سے آمدنی کم اور نقصان زیادہ ہوتا رہا۔مجبوراً پکوان ہاوس بند کرنا پڑا۔ کچھ لوگوں کا قرضہ بھی چڑھ گیا ہے۔گاڑی بھی بیچ دی تاکہ قرضہ اتر سکے۔پھر بھی قرضہ پورا نہ اتر سکا۔ابھی فی الحال دوکان کرائے پر دیدی ہے۔دوکان میں دوبارہ کاروبار کرنے کا سوچتا ہوں مگر رقم موجود نہیں ۔مجھے مرگی جیسی بیماری بھی ہے۔جس میں میں چلتے چلتے راستہ بھول جاتا ہوں،یا میں کہاں موجود ہوں یہ بھی بھول جاتا ہوں اکثر۔اور کبھی مرگی جیسے دورے بھی پڑتے ہیں۔اکثر دوکان پر بھی ایسا ہوچکا ہے ۔کافی علاج کروایا مگر فائدہ نہ ہوسکا۔قسطوں پر موٹر سائیکل بھی لی ہے مگر ڈاکٹر منع کرتے ہیں کسی بھی قسم کی ڈرائیونگ سے۔بچوں کی تعلیم ،گھر کا خرچ چلانے کے لئے کرایہ کسی طرح بھی پورا نہیں پڑتا۔والد صاحب مدد کررہے ہیں فی الحال تو مگر اب ان کے پاس بھی مزید گنجائش نہیں۔(دوکان اور فلیٹ بھی ان ہی کا دِلایا ہوا ہے)۔کچھ مدد دیگر رشتے دار بھی کردیتے ہیں کبھی کبھار،مگر ان کا سارا پیسہ فکس ڈپوزٹ یا انشورنس والا ہے۔میری اور میری بیوی کی خواہش ہے کہ ہم سود نہ کھائیں،نہ ہی کسی سے مانگنے کے محتاج رہیں۔(رشتہ داروں یا والد صاحب وغیرہ سے) میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورتحال میں میں اپنی دوکان بیچ کر پیسہ بینک میں جمع کرواسکتا ہوں۔جس کی ماہانہ آمدنی سے میرا گھر چل سکے؟

    جواب نمبر: 8250

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1760/د= 103/ک

     

    دکان فروخت کرکے رقم بینک میں جمع کرنے کی صورت میں بینک سے جو آمدنی آپ کو ملے گی، یہ خالص سود کی رقم ہوگی، جس کا لینا دینا استعمال کرنا حرام ہے، لہٰذا دکان بیچ کر رقم بینک میں جمع نہ کریں، بلکہ دکان کے کرایہ سے اپنے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کریں، موٹر سائیکل آپ کی ضرورت کی نہیں ہے تو اسے فروخت کردیں۔ اس کے بعد بھی اگر ضروری اخراجات پورے نہیں ہوتے اور آپ غریب ومحتاج ہیں تو رشتہ داروں کی زکاة اور ان کو بینک سے ملنے والا سود آپ لے سکتے ہیں، لیکن اپنے والدین کے زکاة یا سود کی رقم آپ نہیں لے سکتے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند