• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 69539

    عنوان: بونڈ کی خریداری درست ہے یا نہیں؟

    سوال: آج کل پاکستان میں کوئی بھی جائداد مثلاً دوکان یا گھر خریدنے کے لیے رقم وہائٹ کرنی پڑتی ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ بونڈ خریدا جائے ورنہ حکومت کی طرف سے کافی پریشانی پیش آتی ہے تو اس کا طریقہ یہ کیا جاتا ہے کہ ایک آدمی جو اِسٹیٹ بینک کا دلال ہے وہ بونڈ جو پہلے سے کھلے ہوئے ہوتے ہیں بیچتا ہے اور اس پر اپنی سروس چارج کے نام پر 2% کٹوتی کرتا ہے تو کیا مذکورہ مجبوری کی بنا پر ان بونڈس کا خریدنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو پھر متبادل کیا اپنایا جائے؟

    جواب نمبر: 69539

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1294-1337/H=12/1437 بونڈ کی خریداری اگر سود یا قمار پر مشتمل ہوتی ہے تو اس کی خریداری کا حرام ہونا ظاہر ہے البتہ دوکان یا گھر خریدنے میں اپنی اصل حلال رقم کا تحفظ بغیر بونڈ خریدے ہوئے مشکل ہو اور بقدرِ ضرورت بونڈ خرید لیے جائیں تو گنجائش ہے اور اس کی خریداری میں دلال کو دو فی صد اس کی اجرت دینے کی بھی گنجائش ہے بونڈ کی خریداری سود و قمار ہونے پر مقدارِ ضرورت سے زائد خریدنا حرام ہے آپ اگر بونڈ کی پوری تفصیل لکھ کر معلوم کرتے تو بہتر ہوتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند