• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 6929

    عنوان:

    میرے پاس ممبئی میں دو فلیٹ ہیں مشترکہ فیملی میں۔ اب مجھے ایک کاروبار سینٹر کے لیے ممبئی میں آفس چاہیے ۔کیا میں اس کے لیے بینک سے لون لے سکتا ہوں؟ (۲) میں جہاں پر کرایہ کا آفس استعمال کررہا ہوں وہاں پر جومیرا مال اورسامان ہے اس کا انشورنس کر سکتا ہوں یا نہیں؟ اور ساتھ ہی میں اپنے اسٹاف ممبر اور فیملی ممبر کا میڈی کلیم انشورنس بھی کرانا چاہتا ہوں۔ تو آپ حضرات مجھے قرآن اور حدیث کی روشنی سے کوئی راستہ بتائیں۔ آپ کی مہربانی ہوگی۔ اللہ تکلیف سے آپ کی، میری اور تمام امت مسلمہ کی حفاظت کرے اورسب کا ایمان کے ساتھ خاتمہ ہو۔

    سوال:

    میرے پاس ممبئی میں دو فلیٹ ہیں مشترکہ فیملی میں۔ اب مجھے ایک کاروبار سینٹر کے لیے ممبئی میں آفس چاہیے ۔کیا میں اس کے لیے بینک سے لون لے سکتا ہوں؟ (۲) میں جہاں پر کرایہ کا آفس استعمال کررہا ہوں وہاں پر جومیرا مال اورسامان ہے اس کا انشورنس کر سکتا ہوں یا نہیں؟ اور ساتھ ہی میں اپنے اسٹاف ممبر اور فیملی ممبر کا میڈی کلیم انشورنس بھی کرانا چاہتا ہوں۔ تو آپ حضرات مجھے قرآن اور حدیث کی روشنی سے کوئی راستہ بتائیں۔ آپ کی مہربانی ہوگی۔ اللہ تکلیف سے آپ کی، میری اور تمام امت مسلمہ کی حفاظت کرے اورسب کا ایمان کے ساتھ خاتمہ ہو۔

    جواب نمبر: 6929

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 764=764/ م

     

    (۱) بینک سے لون لینے میں سود دینا پڑتا ہے، اور جس طرح سود لینا حرام ہے، بغیر شدید مجبوری کے سود دینا بھی ناجائز ہے، اس لیے انتہائی مجبوری کے بغیر لون نہ لیں۔

    (۲) مال واملاک کا انشورنس عام حالات میں ناجائز ہے، اورمیڈی کلیم انشورنس کی وضاحت فرمائی جائے تو جواب لکھا جاسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند