• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 4516

    عنوان:

    میرا سوال بینک سے ملنے والی کرنسی اور فیکس ڈیپوزٹ کی کمی کے بارے میں ہے۔ ایک شخص ایک ہزار روپیہ جمع کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعہ سے آج وہ ایک گرام سونا خرید سکتا ہے۔ اگر وہ اس کو دس سال تک محفوظ رکھتا ہے تو کرنسی کی کمی اور زیادتی وغیرہ اس کے ایک ہزار کو صرف ۸․۰گرام سونا کے برابر بنائے گی۔ (۱) کیا کرنسی کا گھٹنا آمدنی کا غیر منصفانہ نقصان نہیں ہے جس کو موجودہ سسٹم اس سے لے رہا ہے؟ (۲) اگر وہ ایک ہزار روپیہ کو بینک میں فیکس ڈپوزٹ کے طور پر جمع کردیتا ہے اور بینک اس کو پندرہ سو روپیہ (بطور مثال) دس سال کے بعد دیتا ہے۔ تو کیا اس صورت میں ۱۲۵۰/ روپیہ اپنے حق کے طورپر نہیں لے سکتا اور بقیہ کو چھوڑ دے تا کہ اس کے پیسے کی قیمت ایک گرام سونے کے برابر رہے؟ (۳) اگر کوئی شخص مجھ کو دس سال کے لیے ایک ہزار روپیہ ادھار دے۔ تو کیا اس کے بدلے میں مجھ سے ۱۲۵۰/روپیہ اپنے حق کے طورپر لے سکتا ہے؟ (۴) کیا فیکس ڈپوزٹ کا منافع حرام ہے؟ اگر ہاں، تو کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ بینک کے ذریعہ زیادہ ملنے والا ۵۰۰/ روپیہ ربوا ہے یا یہ اس وجہ سے ہے کہ بینک ربوا کے اصول پر کام کرتا ہے؟ اگر اس کی اجازت ہے تو براہ کرم مجھے بتائیں کہ یہ جائز، ناجائز (مباح، مکروہ، حرام وغیرہ) کے کون سے درجہ میں آئے گا، اس لیے کہ یہ بہتر ہے کہ شبہات سے بچا جائے اگر چہ حرام نہ ہو۔

    سوال:

    میرا سوال بینک سے ملنے والی کرنسی اور فیکس ڈیپوزٹ کی کمی کے بارے میں ہے۔ ایک شخص ایک ہزار روپیہ جمع کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعہ سے آج وہ ایک گرام سونا خرید سکتا ہے۔ اگر وہ اس کو دس سال تک محفوظ رکھتا ہے تو کرنسی کی کمی اور زیادتی وغیرہ اس کے ایک ہزار کو صرف ۸․۰گرام سونا کے برابر بنائے گی۔ (۱) کیا کرنسی کا گھٹنا آمدنی کا غیر منصفانہ نقصان نہیں ہے جس کو موجودہ سسٹم اس سے لے رہا ہے؟ (۲) اگر وہ ایک ہزار روپیہ کو بینک میں فیکس ڈپوزٹ کے طور پر جمع کردیتا ہے اور بینک اس کو پندرہ سو روپیہ (بطور مثال) دس سال کے بعد دیتا ہے۔ تو کیا اس صورت میں ۱۲۵۰/ روپیہ اپنے حق کے طورپر نہیں لے سکتا اور بقیہ کو چھوڑ دے تا کہ اس کے پیسے کی قیمت ایک گرام سونے کے برابر رہے؟ (۳) اگر کوئی شخص مجھ کو دس سال کے لیے ایک ہزار روپیہ ادھار دے۔ تو کیا اس کے بدلے میں مجھ سے ۱۲۵۰/روپیہ اپنے حق کے طورپر لے سکتا ہے؟ (۴) کیا فیکس ڈپوزٹ کا منافع حرام ہے؟ اگر ہاں، تو کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ بینک کے ذریعہ زیادہ ملنے والا ۵۰۰/ روپیہ ربوا ہے یا یہ اس وجہ سے ہے کہ بینک ربوا کے اصول پر کام کرتا ہے؟ اگر اس کی اجازت ہے تو براہ کرم مجھے بتائیں کہ یہ جائز، ناجائز (مباح، مکروہ، حرام وغیرہ) کے کون سے درجہ میں آئے گا، اس لیے کہ یہ بہتر ہے کہ شبہات سے بچا جائے اگر چہ حرام نہ ہو۔

    جواب نمبر: 4516

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 610/ د= 562/ د

     

    (۱-۲) اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے آپ مفتی محمد تقی عثمانی کا رسالہ کاغذ نوٹ اور کرنسی کا حکم نیز کرنسی کی قوت خرید اور ادائیگیوں پر اس کے شرعی اثرات کا مطالعہ کریں، یہ دونوں رسالے فقہی مقالات جلد اول میں شامل ہیں، ان کے مطالعہ سے ان شاء اللہ آپ کو تشفی حاصل ہوجائے گی اور آپ کے اشکالات بھی رفع ہوجائیں گے۔

    (۳) نہیں لے سکتا، زاید رقم سود ہوگی۔

    (۴) حرام ہے اس کی وجہ زاید رقم کا سود ہونا ہے۔ مذکورہ دونوں رسالوں کے مطالعہ سے ان شاء اللہ آپ کا خلجان بسلسلہ فکس ڈپوزٹ بھی رفع ہوجائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند