معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 177356
جواب نمبر: 177356
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:494-418/N=6/1441
سود کا مال اسلام میں خبیث اور گندا مال ہے خواہ کسی بینک کا ہو یا کسی دوسرے ادارے یا شخص کا، اُس سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں؛ لہٰذا بینک کے سود سے موبائل ریچارج کرانا بھی جائز نہ ہوگا؛ بلکہ سود کا صحیح مصرف یہ ہے کہ بلانیت ثواب غرباومساکین کو دیدیا جائے۔ اور اگر سرکاری بینک کا سود ہو تو وہ انکم ٹیکس، سیل ٹیکس وغیرہ میں بھی بھراجاسکتا ہے۔
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن۱۴:۳۷۲،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)، ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة:غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ،…،زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الغصب، ۹: ۲۶۶، ۲۶۹) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند