• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 174353

    عنوان: بینک میں جو روپیہ بڑھتا ہے وہ کیوں حرام ہے جب کہ وہ خود سے دیتا ہے؟

    سوال: بینک میں جو روپیہ بڑھتا ہے وہ کیوں حرام ہے جب کہ وہ خود سے دیتا ہے؟

    جواب نمبر: 174353

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 207-126/SN=03/1441

    بینک میں جو روپیہ رکھا جاتا ہے، شرعی اعتبار سے وہ ”قرض“ ہے اور قرض کے نتیجے میں جو نفع حاصل ہو قرآن و حدیث کی رو سے وہ ”سود“ ہے، اگرچہ یہ نفع باہمی تراضی سے لیا دیا جائے؛ اس لئے بینک میں جمع شدہ رقم پر جو انٹریسٹ ملتا ہے وہ حرام ہے، اس کا استعمال جائز نہیں ہے، اس طرح کی رقم بینک سے وصول کرکے بلا نیت ثواب محض وبال سے بچنے کے لئے غرباء و مساکین پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ کل قرض جرّ منفعةً فہو ربا (مصنف بن أبي شیبة ، رقم: ۲۰۶۹) وقال اللہ تبارک وتعالیٰ: أحلّ اللہ البیع وحرَّم الرِّبوا (البقرة) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند