• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 168937

    عنوان: انٹریسٹ کی رقم کن جگہوں پر خرچ کی جاسکتی ہے ؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ محمد شاہد کے بینک میں دس لاکھ روپیے جمع تھے پانچ سال بعد وہ دس لاکھ مع سود کے چودہ لاکھ ہوکر ملے کیا ان چار لاکھ روپیوں کو جو بینک سے اضافہ ہوکر سود کے ملے ہیں کیا اس رقم سے حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے عامةالمسلمین ومدارس مساجد کیلئے کچھ حفاظتی سازوسامان خرید سکتے ہیں؟یا پھر اس رقم کو کن جگہوں پر خرچ کیا جا سکتا ہے کیا جو لوگ صاحب نصاب نہیں ہیں بلا ثواب ونیت کے ان کو یہ رقم دی جا سکتی یا نہیں؟ شرعی اعتبار سے غریبوں میں کن لوگوں کو شمار کیا جا سکتا ہے ( نیز مدرسے میں راسطہ یا بیت الخلاء میں یہ رقم استعمال کی جا سکتی ہے یا نہیں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں. جن جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہورہی ہے وہ دارالحرب میں شمار ہوگی یا نہیں؟

    جواب نمبر: 168937

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 576-480/D=06/1440

    (۱) سود کی رقم مدارس مساجد یا ان کے لئے حفاظتی سامان کی خریداری میں نہیں لگا سکتے کیونکہ سودی رقم مال خبیث ہے جس کا حکم مالک اصلی تک واپس پہونچانا اور یہ متعذر ہو تو صدقہ بلانیت ثواب کرنا ہے۔ قال فی الدر: ویردونہا علی اربابہا ان عرفوہم والا تصدقوا بہا؛ لان سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ (الدر مع الرد: ۱/۵۵۳) ۔

    (۲) ہاں غرباء مساکین کو بلاثواب کی نیت کے دیدیا جائے غریب وہ ہے جو صاحب نصاب نہ ہو اور مستحق زکات ہو۔ مدرسہ کے راستہ اور بیت الخلاء میں بھی خرچ نہیں کرسکتے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند