• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 163239

    عنوان: سودی قرض کی ایک شکل کا حکم

    سوال: سوال یہ ہے کہ میرے والد نے میرے چچا کی سسرال والوں کو پانچ لاکھ روپے قرض دیے تھے پانچ سالوں کے لیے ، واضح رہے کہ وہ پیسے انھوں نے زمین کی خرید و فروخت میں ڈالنے کے لئے لیے تھے ، پھر جب لینے کا وقت آگیا تو انہوں نے کہا کہ تم دو سالوں کا وقت اور دے دو اور ایک سال کے بدلے میں ہم تمہیں ایک لاکھ روپے زیادہ دیں گے ، جیسے اگر تم زمین خرید کر ڈال دیتے تو اس پر پیسے بڑھتے ؛ ایسے ہی ہم بھی بڑھارہے ہیں دو سال بعد تمہیں سات لاکھ روپے دے دیں گے ، میرے والد اس پر راضی ہو گئے ، یہ بھی واضح ہو کہ یہ وقت بڑھانا بغیر پیسے لوٹائے ہوئے ہی ہوا تھا، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ زیادتی سود ہوگی؟یا زمین پر پیسے بڑھنے کے درجہ میں مانا جائے گا؟ جو بھی ہو دلائل کی روشنی میں واضح فرماکر ممنون ہوں۔

    جواب نمبر: 163239

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1177-983/N=11/1439

     قرض کے معاملہ میں حسب معاہدہ یا عرف، قرض دینے والا قرض لینے والے سے جو بھی زیادتی وصول کرتا ہے، وہ بلاشبہ سود ہوتی ہے؛ اس لیے آپ کے والد صاحب ، اپنے بھائی کی سسرال والوں سے آئندہ دو سالوں میں فی سال ایک لاکھ روپے، کل دو لاکھ روپے جو مزید وصول کریں گے ، وہ بلاشبہ سود اور حرام ہیں۔

    قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند