• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 160783

    عنوان: ذاتی مکان یا فلیٹ کے لیے بینک سے ہوم لون لینے کا حکم

    سوال: محترم جناب معاشی تنگی اور ۳ اولادیں بھی کرائے کا گھر ناکافی بھی اور سال ہونے پر گھر مالک کے ریٹ بھی بڑھتے ہیں ایک مستقل گھر کا مسئلہ بنا ہوا ہے کیا اس صورت میں بینک لون لیکر گھر کا انتظام کر سکتا ہوں، برائے مہربانی شریعت کی خوبصورتی میں اس مسئلے پر کیا کیا جائے جواب مرحمت فرمائے خیرا۔

    جواب نمبر: 160783

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:852-941/N=11/1439

    اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور جب آپ بینک سے ہوم لون لیں گے تو آپ بینک کو سود ادا کریں گے اور سوال میں جو مسائل وپریشانیاں ذکر کی گئی ہیں، وہ ضرورت واضطرار کے درجے کی نہیں ہیں کہ ان کی وجہ سے سود ی قرض کی اجازت ہوجائے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں بینک سے سودی قرض لے کر ذاتی مکان یا فلیٹ خریدنے کی اجازت نہ ہوگی، آپ کو چاہیے کہ کرایہ کے مکان یا فلیٹ سے کام چلاتے رہیں اور اپنی تنخواہ سے ماہانہ کچھ پیسے جمع کرتے رہیں اور اللہ تعالی سے دعا بھی کرتے رہیں، إن شاء اللہ دیر سویر ذاتی مکان یا فلیٹ کا نظم ہوجائے گا۔

    قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد،کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، فالضرورة بلوغہ حداً إن لم یتناول الممنوع ھلک أو قارب وھذا یبیح تناول الحرام، والحاجة کالجائع الذي لو لم یجد ما یأکلہ لم یھلک غیر أنہ یکون في جھد ومشقة، وھذا لا یبیح الحرام ویبیح الفطر فی الصوم (غمز عیون البصائر شرح الأشباہ والنظائر لابن نجیم، ۱: ۲۷۷، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،الضرورة ھي الحالة الملجئة لتناول الممنوع شرعاً، والحاجة: أما الحاجة فإنھا وإن کانت حالة جھد ومشقة فھي دون الضرورة ولا یتأتی معھا الھلاک فلذا لا یستباح بھا الممنوع شرعاً، مثال ذلک: الصائم المسافر بقاوٴہ صائماً یحملہ جھداً ومشقة فیرخص لہ الإفطار لحاجتہ للقوة علی السفر (درر الحکام شرح مجلة الأحکام، ۱: ۳۸، ط: دار عالم الکتب الریاض)، الضرورة ھي خوف الضرر بترک الأکل إما علی نفسہ أو علی عضو من أعضائہ (أحکام القرآن للجصاص، باب في مقدار ما یأکل المضطر،۱: ۱۶۰)، وإن ھذا التعریف وإن کان مختصاً بضرورة أکل المحرم ولکنہ یشمل تعاطي کل محظور بشرط أن یکون ھناک خوف علی النفس أو العضو کارتکاب الکذب أو المحظورات الأخری في حالة الإکراہ الملجیٴ، ویجب لتحقق الضرورة أمور: الأول أن یکون ھناک خوف علی النفس أو علی العضو، الثاني: أن تکون الضرورة قائمة لا منتظرة بمعنی أن یقع خوف الھلاک أو التلف بغلبة الظن حسب التجارب لا مجرد وھم بذلک، الثالث: أن لا یکون لدفع الضرر وسیلة أخری من المباحات ویغلب علی ظن المبتلی بہ أن دفع الضرر متوقع بارتکاب بعض المحرمات الخ (أصول الإفتا وآدابہ، ص ۲۶۸، ۲۶۹،ط:المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وأما المنھیات التي تباح عند الضرورة کإتلاف مال الغیر وشرب المسکر فإنھا تحل بل تجب بالملجیٴ لا بغیر الملجیٴ (شرح القواعد الفقہیة،ص: ۱۵۹، ط: دار القلم للطباعة والنشر والتوزیع، دمشق) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند