• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 151790

    عنوان: بنک یا عام آدمی سے قسطوں پر گاڑی خریدنا

    سوال: (۱) کیا بنک سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز ہے ؟ (۲) کسی عام آدمی سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز ہے ؟ کچھ لوگوں کے نزدیک بنک سے قسطوں پر گاڑی لینا حرام ہے جبکہ کسی عام آدمی سے لینا جائز ہے حالانکہ دونوں صورتوں میں ایک عرصہ کی میعاد فریقین مقرر کرتے ہیں اور گاڑی کی موجودہ قیمت سے زیادہ وصول کی جاتی ہے ۔ مثلا ہم نے ایک گاڑی جس کی قیمت 55 لاکھ تھی 28 ماہ کی قسط پر 68 لاکھ کی خریدی ہے ۔ براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 151790

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1291-1241/L=10/1438

    ادھار متعینہ قسطوں پر سامان بیچنا اور ادھار کی وجہ سے اصل قیمت میں کچھ فیصد اضافہ کردینا شرعی اعتبار سے بلاشبہ جائز ہے ؛ البتہ مجلس عقد میں نقد یا ادھار میں سے کسی ایک پر اتفاق ضروری ہے ، ادھار کی صورت میں نقد کے مقابل جو اضافی رقم گاہک ادا کررہا ہے وہ شرعاً سود نہیں؛ بلکہ قیمت ہی کا حصہ ہے

     البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، یلزم أن تکون المدّة معلومة فی البیع بالتأجیل والتقسیط (شرح المجلة، رقم المادة: ۲۴۵، ۲۴۶) والثمن ما تراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمة أو نقص (رد المحتار علی الدر المختار: /۷ ۱۲۲، مطلب فی الفرق بین القیمة والثمن، ط: زکریا)

    اگر بینک یہی صورت اختیار کرے کہ پہلے بینک خود گاڑی خریدے اور پھر نفع لے کر زائد قیمت میں فروخت کردے اور خریدار قسطوں پر رقم کی ادائیگی کردے تو اس طور پر معاملہ کرنا جائز ہوگا؛لیکن بینک والے اس طور پر معاملہ نہیں کرتے ؛بلکہ خریدار کی طرف سے یکمشت رقم اداکرکے خود خریدار سے سود کے ساتھ رقم وصول کرتے ہیں جوشرعاً سودی معاملہ ہے اورحرام ہے ،اگر ۵۵/لاکھ کی گاڑی کو آپ ۶۸/لاکھ میں کمپنی یا کسی شخص سے خریدیں تویہ معاملہ جائز ہوگا بشرطیکہ مدت اور قسط کی وضاحت کردی جائے ؛لیکن بینک سے مذکورہ بالا طریقے کے مطابق معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند