معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 151790
جواب نمبر: 151790
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1291-1241/L=10/1438
ادھار متعینہ قسطوں پر سامان بیچنا اور ادھار کی وجہ سے اصل قیمت میں کچھ فیصد اضافہ کردینا شرعی اعتبار سے بلاشبہ جائز ہے ؛ البتہ مجلس عقد میں نقد یا ادھار میں سے کسی ایک پر اتفاق ضروری ہے ، ادھار کی صورت میں نقد کے مقابل جو اضافی رقم گاہک ادا کررہا ہے وہ شرعاً سود نہیں؛ بلکہ قیمت ہی کا حصہ ہے
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، یلزم أن تکون المدّة معلومة فی البیع بالتأجیل والتقسیط (شرح المجلة، رقم المادة: ۲۴۵، ۲۴۶) والثمن ما تراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمة أو نقص (رد المحتار علی الدر المختار: /۷ ۱۲۲، مطلب فی الفرق بین القیمة والثمن، ط: زکریا)
اگر بینک یہی صورت اختیار کرے کہ پہلے بینک خود گاڑی خریدے اور پھر نفع لے کر زائد قیمت میں فروخت کردے اور خریدار قسطوں پر رقم کی ادائیگی کردے تو اس طور پر معاملہ کرنا جائز ہوگا؛لیکن بینک والے اس طور پر معاملہ نہیں کرتے ؛بلکہ خریدار کی طرف سے یکمشت رقم اداکرکے خود خریدار سے سود کے ساتھ رقم وصول کرتے ہیں جوشرعاً سودی معاملہ ہے اورحرام ہے ،اگر ۵۵/لاکھ کی گاڑی کو آپ ۶۸/لاکھ میں کمپنی یا کسی شخص سے خریدیں تویہ معاملہ جائز ہوگا بشرطیکہ مدت اور قسط کی وضاحت کردی جائے ؛لیکن بینک سے مذکورہ بالا طریقے کے مطابق معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند