معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 150208
جواب نمبر: 150208
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 681-817/N=8/1438
(۱): اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے، احادیث میں سود لینے والے اور سود دینے والے دونوں پر لعنت آئی ہے؛ اس لیے کاروبار کی ترقی یا کوئی نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے بینک سے سودی قرض لینا ہرگز جائز نہیں، سخت حرام ہے؛ البتہ اگر کسی شخص کے پاس کاروبار کی ترقی یا کوئی نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے دیگر اخراجات سے خالی مطلوبہ رقم موجود ہے ؛ لیکن وہ انکم ٹیکس ادا کردہ نہیں ہے ، یعنی: حکومت کی نظر میں غیر قانونی ہے، جس کی بنا پر کاروبار کی ترقی یا کوئی نیا کوئی کاروبار شروع کرنے کے لیے اگر بینک سے لون نہ لیا جائے تو انکم ٹیکس کے حوالے سے مختلف پریشانیوں کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں محض انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنے کے لیے ظاہری طور پر بینک سے لون لینے کی گنجائش ہوگی؛؛ کیوں کہ یہاں بینک سے سودی قرض کسی فائدے کی غرض سے نہیں لیا جارہا ہے؛ بلکہ صرف انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنے کے لیے ، یعنی: دفع ظلم کے لیے ؛ اس لیے اس صورت میں انشاء اللہ گناہ نہ ہوگا(دیکھئے: فتاوی نظامیہ اوندرویہ ۱: ۲۳۳، ۲۳۴، مطبوعہ: تھانوی آفسیٹ پرنٹرس ، دیوبند، مسائل سود، مرتبہ حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم العالیہ ص ۲۴۴، ۲۴۵، مطبوعہ: حراء بک ڈپو، دیوبند)؛ لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ لون کی رقم کہیں اٹھاکر رکھدی جائے، کاروبار میں استعمال نہ کی جائے اور پہلے سے موجود اپنی حلال رقم ہی کاروبار میں لگائی جائے ۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کی دینی ودنیوی ہر طرح کی ترقی صرف دین وشریعت پر عمل کرنے سے ہوسکتی ہے، دین وشریعت کو نظر انداز کرکے اور سودی لین دین اور معاملات میں پڑکر ہرگز نہیں ہوسکتی ؛ جب کہ غیر مسلموں کے لیے یہ کچھ شرط نہیں ؛ کیوں کہ وہ فروعات کے مکلف ہی نہیں ہیں؛ اس لیے مسلمانوں کو غیروں کی دیکھا دیکھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، انھیں اپنے تمام کام شریعت کے مطابق ہی کرنے چاہیے، اسی سے ان کی ہر طرح کی ترقی ہوگی ، بینک کی سودی اسکیموں یا ناجائز وحرام لین دین اور کاروبار سے مسلمانوں کی کچھ ترقی نہیں ہوسکتی ، یہ محض ہماری خام خیالی ہے، قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: ولو أنھم آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکٰت من السماء والأرض الخ (سورة الأعراف،رقم الآیة:۹۶)۔
(۲): فائنانس پر گاڑی لینے کا حکم وہی ہے جو اوپر کاروبار کی ترقی یا کوئی نیا کاروباسر شروع کرنے کے لیے بینک سے سودی قرض لینے کا ذکر کیا گیا، یعنی: اگر کسی کے پاس گاڑی خریدنے کے بہ قدر پیسہ ہے؛ لیکن انکم ٹیکس کے مسائل کی وجہ سے وہ اپنے پاس موجود اتی وحلال رقم سے نہیں خرید سکتا تو اس صورت میں گاڑی فائنانس پر لینا جائز ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں سودی قرض کا مقصد کوئی فائدہ حاصل کرنا نہیں ہے؛ بلکہ انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنا ہے جو دفع ظلم کی شکل ہے۔ اور اس صورت میں گاڑی خریدنے والے کو چاہیے کہ اگر قسطوں کے انتظار کے بغیر جلد از جلد بینک کا لون ادا کیا جاسکتا ہو تو ادا کردے، اس میں تاخیر نہ کرے۔ اور اگر کسی کے پاس گاڑی خریدنے کے بہ قدر پیسہ نہیں ہے تو فائنانس پر گاڑی خریدنا جائز نہیں ؛ کیوں کہ اس میں بینک سے سودی قرض کا معاملہ پایا جاتا ہے جو اسلام میں سخت حرام ہے ، ایسا شخص اپنی ضروریات کرایہ کی گاڑیوں سے پوری کرے، اس کے لیے فائنانس پر گاڑی لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اور آپ نے مطلق جواز کا جو مسئلہ سنا، وہ صحیح نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند