• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 145432

    عنوان: فریڈم کرنٹ اکاوَنٹ میں چھپا ممکنہ سود کا عنصر

    سوال: حبیب بینک کا طریقہ کار؟ پاکستان میں حبیب بینک جو کہ ایک فریڈم کرنٹ اکاوَنٹ کھول کے دیتا ہے ۔ اس کی شرط ہے کہ اگر آپ اکاوَنٹ میں 25 ہزار کی نقدی سے نیچے نہ آئیں اور اتنا کم سے کم سرمایہ برقرار رکھیں تو بینک آپ کو تمام سہولیات مفت دے گا۔ آپ سے چیک بک، ڈیبیٹ کارڈ، ایس ایم ایس، بینکر چیک ڈیماند ڈرافٹ وغیرہ کسی بھی سروس کی کٹوتی نہیں ہو گی۔ اگر 25 ہزار سے کم ہوا تو پورا مہینہ 58 روپے ہر ہونے والے لین دین پر دینا پڑے گا۔میں نے اکاوَنٹ کھول تو لیا ۔ ایک دوست نے رہنمائی کی کہ اس میں سود کی ملاوٹ ہے ۔ میں نے مقامی علما سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ اس میں سود کا عمل دخل ہے ۔ مثال میں ایک مقامی ٹیلیفون نیٹ ورک کا حوالہ دیا کہ وہ 2 ہزار کا بیلنس برقرار رکھیں تو روزانہ کا 60 منٹ فری میں ملے گا۔اس نیٹ ورک کا نام ٹیلی نار ہے ۔مولانا کے کہنے پر میں نے اپنے پیسے اس بینک سے نکلوا دیئے اور استعمال ترک کر دیا۔ ابھی بند نہیں کیا اس کے لئے کاغذی کاروائی درکار ہے ،مگر اس کے استعمال سے توبہ کر لی۔ براہ مہربانی اس پہلو پر روشنی دالیں کیوں کہ دیوبند کے عقائد میری بنیاد ہیں اور اپ کی بات پتھر پر لکیر اور بہت سے میرے جیسے کم عقل پاکستانیوں کے لئے زاد راہ ہو گی جو اس کرنٹ اکاوَنٹ کے نام پر اللہ سے جنگ کی سازش رچا نے والیں کے چنگل سے بچ سکتے ہیں۔ میں نے اس ڈر سے صرف شک کی بنیاد پر اس کے استعمال پر توبہ کر لی ۔کیونکہ میں نے اپنے نبی پاک کی حدیث کا مفہوم پڑھا ہے کہ ایک حلال ہے ایک حرام۔ ایک اس کے درمیان شک کی چیز۔ اس سے بھی دور رہو۔ میں دور ہو گیا ۔براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 145432

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 015-037/M=2/1438
    صورتِ مسئولہ میں حبیب بینک اپنی شرط کے مطابق جو سہولیات فراہم کرتا ہے در اصل یہ قرض و امانت پر نفع ہے کیونکہ بینک اُسی رقم کے مقابلے میں یہ رعایت دیتا ہے اور قرض و امانت پر نفع و رعایت وصول کرنا جائز نہیں نیز حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے حبیب بینک کے متعلق لکھا ہے ”حبیب بینک یا دوسرے پاکستانی بینکوں کے ”نفع و نقصان کے کھاتے“ میں سرمایہ کاری اس لیے درست نہیں کہ یہ سارے بینک آگے جو اس روپئے کو استعمال کرتے ہیں وہ سودی معاملے میں استعمال کرتے ہیں اگر چہ نام بدلا ہوا ہے لہٰذا اُس کھاتے میں رقم رکھوانا اور اُس کے نفع کو استعمال کرنا جائز نہیں“۔ فتاوی عثمانی: ۳/ ۳۴۳، نعیمیہ دیوبند۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند