• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 10659

    عنوان:

    کیا دیوبند سے فارغ کسی فاضل کے لیے فائنانس میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنا اس نیت سے کہ اس میدان میں امت مسلمہ کی خدمت کرنے کے مقصد سے رسمی فائنانس سسٹم کو سمجھنے کے لیے جائز ہے؟اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اس تعلیم میں اس کو سود پر مبنی حساب کتاب کو لکھنا، پڑھنا اور سمجھنا پڑے گا، لیکن اس طرح کے لیے لین دین میں یقینی طور پر گواہی یا شرکت نہیں کرنی پڑے گی۔

     میں نے مفتی تقی صاحب کے البلاغ سے یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ جب تک انسان سود پر مبنی لین دین میں ملوث نہیں ہے تب تک اس کے لیے سودپر مشتمل میٹریل کا لکھنا اور پڑھنا درست ہے۔ آ پ کا تفصیلی جواب بہت بہتر ہوگا۔ نیز استعلیم کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے مسلمان معاصرتی فائنانسنگ میں ملوث ہوجاتے ہیں (چاہے یہ اسلامی ہو یا رسمی)چاہے دست ہو یا غلط بغیر مکمل یقین کے ساتھ۔

    اس معاملہ میں صحیح رہنمائی اور معلومات رکھنا بہت ضروری ہے۔ اور بغیرجدید فائنانس سسٹم اور قانون کو سمجھے ہوئے ، مسلمانوں کو فائنانس کے مستقبل کے حل کو تلاش کرنا اور موجودہ غلطی کی نشاندہی کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔

    سوال:

    کیا دیوبند سے فارغ کسی فاضل کے لیے فائنانس میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنا اس نیت سے کہ اس میدان میں امت مسلمہ کی خدمت کرنے کے مقصد سے رسمی فائنانس سسٹم کو سمجھنے کے لیے جائز ہے؟اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اس تعلیم میں اس کو سود پر مبنی حساب کتاب کو لکھنا، پڑھنا اور سمجھنا پڑے گا، لیکن اس طرح کے لیے لین دین میں یقینی طور پر گواہی یا شرکت نہیں کرنی پڑے گی۔

     میں نے مفتی تقی صاحب کے البلاغ سے یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ جب تک انسان سود پر مبنی لین دین میں ملوث نہیں ہے تب تک اس کے لیے سودپر مشتمل میٹریل کا لکھنا اور پڑھنا درست ہے۔ آ پ کا تفصیلی جواب بہت بہتر ہوگا۔ نیز استعلیم کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے مسلمان معاصرتی فائنانسنگ میں ملوث ہوجاتے ہیں (چاہے یہ اسلامی ہو یا رسمی)چاہے دست ہو یا غلط بغیر مکمل یقین کے ساتھ۔

    اس معاملہ میں صحیح رہنمائی اور معلومات رکھنا بہت ضروری ہے۔ اور بغیرجدید فائنانس سسٹم اور قانون کو سمجھے ہوئے ، مسلمانوں کو فائنانس کے مستقبل کے حل کو تلاش کرنا اور موجودہ غلطی کی نشاندہی کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔

    جواب نمبر: 10659

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 386=262/ل

     

     البلاغ کا مضمون صحیح اور درست ہے۔ تعلیم کی حد تک سود پر مبنی حساب کتاب کو لکھنے، پڑھنے اور سمجھنے کی گنجائش ہے، لیکن سودی معاملہ میں لکھنا ناجائز ہوگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے، سودلینے والے، سود دینے والے، سود لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ (مشکاة شریف: ۲۴۴)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند