• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 67271

    عنوان: اگر ہم اپنے ہاتھ میں دھاگہ وغیرہ باندھ لیں تو كیا عبادات قبول نہیں ہوں گی؟

    سوال: (1) میں جاننا چاہتا ہوں کہ اگر ہم اپنے ہاتھ میں کوئی دھاگا باندھ لیتے ہیں تو کیا ہماری کوئی بھی عبادت جیسے نماز یا پھر کوئی بھی عبادت قبول ہوگی کہ نہیں؟ (۲) کیا اس طرح کا کوئی بھی دھاکا اپنے ہاتھ یا پھر جسم کے کسی اور حصے میں باندھنا حرام ہے؟ براہ کرم جلد جواب عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 67271

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 865-883/N=9/1437 (۱، ۲) : بہت سے غیر مسلم اپنے ہاتھوں میں کلائی کے پاس یا پیروں میں ٹخنے کے پاس یا انگوٹھے میں جو کالادھاگہ باندھتے ہیں یہ منت کے طور پر یا مصیبت وپریشانی کے دفعیہ کے لیے غلط عقیدہ کے ساتھ باندھتے ہیں، یہ مذہب اسلام میں ہرگز جائز نہیں، حرام ہے،؛ بلکہ بعض علما نے اسے کفر قرار دیا ہے، بعض ناخواندہ مسلمان بھی غیروں کی دیکھا دیکھی یا لاعلمی میں یہ دھاگہ باندھ لیتے ہیں جو ہرگز جائز نہیں، مسلمانوں کے لیے اس سے بچنا واجب وضروری ہے ورنہ نماز اور دیگر عبادات غارت ہوجانے کا اندیشہ ہے، اللہ تعالی اس طرح کی چیزوں سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں، آمین، قال الزیلعي (في تبیین الحقائق، کتاب الکراھیة، فصل فی اللبس ۶: ۱۶، ۱۷، طمکتبة إمدادیة ملتان باکستان): ثم الرتیمة قد تشتبہ بالتمیمة علی بعض الناس، و ہي - أي: التمیمة - خیط کان یربط في العنق أو في الید في الجاہلیة لدفع المضرة عن أنفسہم علی زعمہم وہو منہی عنہ، وذکر في حدود الإیمان أنہ کفر اھ وفي الشلبي (علی التبیین ۶: ۱۷) عن ابن الأثیر: التمائم جمع تمیمة، وھي خرزات کانت العرب تعلقھا علی أولادھم یتقون بھا العین في زعمھم فأبطلھا الإسلام والحدیث الآخر ”من علق تمیمة فلا أتم اللہ لہ“ ؛ لأنھم یعتقدونھا تمام الدواء والشفاء؛ بل جعلوھا شرکاء؛ لأنھم أرادوا بھا دفع المقادیر المکتوبة علیھم وطلبوا دفع الأذی من غیر اللہ تعالی ھو دافعہ اھ ط۔ (رد المحتار کتاب الحظر والإباحة، فصل فی اللبس، ۹: ۵۲۳، ط مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند