عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 64449
جواب نمبر: 64449
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 739-739/M=8/1437 (۱) دین میں نئی چیز ایجاد کرنا یعنی ہرایسا کام کرنا جو شریعت سے ثابت نہ ہو، عہد صحابہ تابعین اور تبع تابعین میں اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو اور اسے دین وثواب سمجھ کر کیا جائے یہ بدعت ہے، البدعة ہي الأمر المحدث الذي لم یکن علیہ الصحابة والتابعون ولم یکن مما اقتضاہ الدلیل الشرعی (قواعد الفقہ: ص۲۰۴) (۲) عید میلاد النبی منانا ہی ثابت نہیں، کسی کی پیدائش پر سالگرہ منانا یہ انگریزوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں، صحابہٴ کرام سے زیادہ عاشق رسول کون ہوسکتا ہے، لیکن کبھی کسی صحابی نے عید میلاد النبی نہیں منائی، لہٰذا مسلمانوں کو اس بدعت سے بچنا چاہیے اوراس موقع پر حلوا کھیر بنانے سے بھی احتراز چاہیے۔ (۳) عقیدت ومحبت میں یا تبرک کی غرض سے خانہٴ کعبہ کی دیواروں سے ٹوپی، جانماز رگڑنے میں مضائقہ نہیں، بعد میں ان چیزوں کا اہتمام سے کیا مراد ہے؟ (۴) یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم میں زبر، زیر، پیش وغیرہ بعد میں لگائے گئے ہیں لیکن یہ کام خیر القرون میں ہوا ہے اس لیے یہ بدعت ہرگز نہیں۔ (۵) فجر کی اذان میں الصلاة خیر من النوم کا اضافہ عہد نبوی ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر ہوا تھا اس لیے اس کے بدعت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (۶) تراویح کی جماعت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے البتہ اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہو جائے تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی، صحابہٴ کرام فرداً فرداً پڑھتے تھے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں باضابطہ جماعت کا نظم قائم ہوا، بہرحال تراویح کی نماز بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام سے ثابت ہے، اس لیے یہ بدعت ہرگز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند