• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 64449

    عنوان: بدعت کیا ہے؟

    سوال: ہمارے ایک بھائی عید میلاد النبی پر کھیر بنوائی ، جب ہم نے ان سے کہا بھائی یہ بدعت ہے تو انہوں نے کچھ سوالات کئے؛ (۱) بدعت کیا ہے؟ (۲) عید میلا د النبی پر کھیر حلوا بنانا کیسا ہے؟ (۳) کھانا کعبہ کی دیواروں پر ٹوپی ، جانماز رگڑنا اور بعد میں ان چیزوں کا اہتمام کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ (۴) لوگ کہتے ہیں قرآن میں زیر زبر پیش بعد میں لگائے گئے ہیں تو کیا یہ بدعت ہے؟ (۵) فجر کی اذان میں الصلاة خیر من النوم بعد میں جوڑاگیا ہے تو کیا یہ بدعت نہیں ہے؟ (۶) کہتے ہیں تراویح پہلے جماعت سے نہیں ہوتی تھی، اب باجماعت کی جاتی ہے تو کیا یہ بدعت نہیں ہے؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 64449

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 739-739/M=8/1437 (۱) دین میں نئی چیز ایجاد کرنا یعنی ہرایسا کام کرنا جو شریعت سے ثابت نہ ہو، عہد صحابہ تابعین اور تبع تابعین میں اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو اور اسے دین وثواب سمجھ کر کیا جائے یہ بدعت ہے، البدعة ہي الأمر المحدث الذي لم یکن علیہ الصحابة والتابعون ولم یکن مما اقتضاہ الدلیل الشرعی (قواعد الفقہ: ص۲۰۴) (۲) عید میلاد النبی منانا ہی ثابت نہیں، کسی کی پیدائش پر سالگرہ منانا یہ انگریزوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں، صحابہٴ کرام سے زیادہ عاشق رسول کون ہوسکتا ہے، لیکن کبھی کسی صحابی نے عید میلاد النبی نہیں منائی، لہٰذا مسلمانوں کو اس بدعت سے بچنا چاہیے اوراس موقع پر حلوا کھیر بنانے سے بھی احتراز چاہیے۔ (۳) عقیدت ومحبت میں یا تبرک کی غرض سے خانہٴ کعبہ کی دیواروں سے ٹوپی، جانماز رگڑنے میں مضائقہ نہیں، بعد میں ان چیزوں کا اہتمام سے کیا مراد ہے؟ (۴) یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم میں زبر، زیر، پیش وغیرہ بعد میں لگائے گئے ہیں لیکن یہ کام خیر القرون میں ہوا ہے اس لیے یہ بدعت ہرگز نہیں۔ (۵) فجر کی اذان میں الصلاة خیر من النوم کا اضافہ عہد نبوی ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر ہوا تھا اس لیے اس کے بدعت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (۶) تراویح کی جماعت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے البتہ اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہو جائے تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی، صحابہٴ کرام فرداً فرداً پڑھتے تھے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں باضابطہ جماعت کا نظم قائم ہوا، بہرحال تراویح کی نماز بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام سے ثابت ہے، اس لیے یہ بدعت ہرگز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند