• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 50949

    عنوان: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم

    سوال: ایک مسئلہ ہمارے علاقے میں چند دنوں سے پریشان کررہا ہے، وہ یہ کہ کچھ بریلوی حضرات حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کو بارہ تاریخ بتاتے ہیں اور ہمارے امام صاحب نو تاریخ بتاتے ہیں ، اخر اس بات پر جھگڑا کیوں ؟ کیا حضور کی پیدائش الگ الگ تاریخ ہوسکتی ہے؟ اگر ہاں تو کیوں اور ا گر نہیں تو حقیقی تاریخ کیا ہے؟ اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ وفات کی تاریخ کیا ہے؟

    جواب نمبر: 50949

    بسم الله الرحمن الرحيم

    پریشانی اور جھگڑا اہل حق علمائے کرام کے اختلاف سے پیدا نہیں ہوتا سینکڑوں مسائل اور بے شمار سوانح میں صدیوں سے اختلاف چلا آتا ہے مگر امت میں نہ انتشار وپریشانی کی نوبت آئی نہ جوتم پیزار اور جھگڑے ہوئے نہ اب ہوتے ہیں،اصل یہ ہے کہ چھ سو سال کے قریب امت پر ایسے گذرے کہ جس میں نہ یوم ولادت منایا گیا نہ یوم وفات منانے کی رسم تھی جب سے ان رسموں کی بنیاد رکھی گئی اُسی وقت سے جھگڑے اور پریشانیاں وجود میںآ ئیں، اصالةً یہ ڈے (Day) منانے کی رسم ہی مزاجِ اسلام کے سراسر منافی ہے نہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورجاں نثار صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو منایا نہ حضرات ائمہ مجتہدین وسلف صالحین رحمہم اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ سے ان رسموں (تاریخ ولادت ووفات) کا منانا ثابت ہے، اس مختصر تمہید کے بعد جواب عرض ہے کہ بریلوی لوگوں نے جو بتلایا ہے وہ مرجوح ہے، محسن اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت میں چند اقوال ہیں اکثر محققین کے نزدیک آٹھ ربیع الاول راجح ہے، امام صاحب نے نو ربیع الاول بتلائی ہے، یہ قول بھی کفایت المفتی وغیرہ میں منقول ہے، بعض حضرات نے دو ربیع الاول بھی ارشاد فرمایا ہے، اسی طرح تاریخ وفات کا حال ہے حقیقت یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول بارہ وفات بے سرو پا یوں ہی مشہور ہوگیا ہے، اس لیے کہ ربیع الاول اور پیر کا دن ہونا تو متفق علیہ ہے، نیز اس پر بھی اتفاق ہے کہ حجة الوادع یعنی نو ذی الحجہ سن دس ہجری کو جمعہ کا دن تھا اس حساب سے پیر کے دن بارہ ربیع الاول ہو ہی نہیں سکتی، پس بارہ ربیع الاول یوم وفات ہونا بالکل بدیہی البطلان ہے، محدث اعظم شارحِ بخاری شریف علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ تعالی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے، البتہ اہل سیر وتواریخ نے یکم اور دو ربیع الاول کو قرار دیا ہے اور اس میں بھی راجح دو ربیع الاول ہے، احسن الفتاوی جلد ثانی ص۳۶۸ میں قدرے تفصیل ہے اسی سے ماخوذ کرکے تفصیل بالا تحریر کردی گئی ہے، یوم ولادت اور یومِ وفات میں چند اقوال سے بھی ثابت ہے کہ زمانہٴ خیر القرون اور اس کے کئی صدی بعد تک نہ یوم ولادت منایا گیا نہ یومِ وفات کی رسم تھی ورنہ یہ اختلاف علماء سیر وتواریخ میں نہ ہوتا اس زمانہ کی عجیب تر بات یہ بھی ہے کہ بارہ وفات بھی کہتے ہیں اور اسی میں فرحت وانبساط سرور وخوشی کے اسباب بھی بڑھ چڑھ کر اختیار کرتے ہیں بلکہ نمازیں ترک کرکے گانے بجانے میں مشغول رہتے ہیں۔ فیا للعجب۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند