• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 146536

    عنوان: قبر پہ پھول ڈالنا اور مولانا رشید احمد رحمہ اللہ پہ الزام

    سوال: سوال: بریلوی ، شیخ رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کا حوالہ دیتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کے علماء دیوبند بھی قبروں پر پھول چڑھانے کے قائل ہیں: دیوبندی عالم شیخ رشید ا حمد گنگوہی کا موقف درج ذیل ہے: ابن عابدین (شامی) نے فرمایا ہری جڑی بوٹیاں اور گھاس قبر سے کاٹنا مکروہ ہے، خشک جائز ہے جیسا کہ البحر والدرر اور شرح المنیہ میں ہے۔ الامداد میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب تک گھاس، پھول، پتے، ٹہنی سرسبز رہیں گے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے اس سے میت مانوس ہوگا اور رحمت نازل ہوگی۔ اس کی دلیل وہ حدیث باک ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرسبز ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور جن دو قبروں کو عذاب ہورہا تھا ایک ایک ٹہنی ان پر رکھ دی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کی تسبیخ کی برکت سے ان کے عذاب میں کمی رہے گی کیونکہ خشک کی تسبیح سے زیادہ کامل سرسبز کی تسبیح ہوتی ہے کہ ہری ٹہنی کی ایک خاص قسم کی زندگی ہے اس ارشاد پاک کی پیروی کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قبروں پر پھول، گھاس، اور سرسبز ٹہنیاں رکھنا مستحب ہے۔ اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے یہ جو ہمارے زمانہ میں قبروں پر تروتازہ خوشبودار پھول چڑھائے جاتے ہیں، امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر کیا کہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہعنہ نے اپنی قبر میں دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (رشید احمد گنگوہی، لامع الدراری علی جامع البخاری، ۴/۳۸۰، المکتبة الامدادیہ، باب العمرة، مکة المکرمہ) برائے مہربانی جواب دیں۔

    جواب نمبر: 146536

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 199-425/B=5/1438

    یہ عام صحابہ سے ثابت نہیں صرف حضرت بریدہ سے یہ وصیت ثابت ہوتی ہے، اور تنہا ایک صحابی کا عمل پوری امت کے لیے تشریعی حکم نہیں ہوسکتا، اس لیے یہ واقعہ حضور کی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔ ہمارے لیے یہ عمل نہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ قبرستان میں جو خودرو گھاس اور پودے درخت ہوتے ہیں جب تک وہ سر سبزو شاداب رہتے ہیں تسبیح پڑھتے ہیں جس سے مردوں کو انسیت حاصل ہوتی ہے لیکن بالقصد پھول ڈالنا کسی روایت سے ثابت نہیں، یہی راجح اور مفتی بہ قول ہے۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند