• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 7094

    عنوان:

    میں اور میرے بڑے بھائی اپنے والد کی پہلی بیوی سے ہیں۔ میرے والد نے طلاق دے دی، اور والد نے ہماری کفالت کی۔ والد صاحب نے اس کے بعد دوسری شادی کی، جس سے دو اور لڑکے ہیں۔ اڑتیس سال کے بعد میرے والد نے میری سوتیلی ماں کے ساتھ اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت ہمیں اپنی جائیدادسے بے دخل کرنے کے مقصدسے ایک شادی کی۔ اب ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور انھوں نے ایک وصیت کی ہے جس میں اس نے اپنی پوری جائیداد میری سوتیلی ماں، سوتیلے بھائی اور سوتیلی بہن کے نام کی ہے اورہمارے نام کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت ایک مسلمان شریعت کے وراثت کے قوانین کو نظر انداز کرسکتا ہے، اور انڈین سکسیزن ایکٹ 1925 کے تحت عمل کرسکتا ہے، اوروارثوں کے لیے شرعی تقسم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی پسند کی کوئی بھی وصیت کرسکتا ہے۔ میری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ہماری سوتیلی ماں، سوتیلے بھائی اور سوتیلی بہن کوشریعت کے مطابق ہمیں وراثت کا حق دینے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک فتوی جاری کریں۔ وہ لوگ بہت پکے اور باعمل مسلمان ہیں۔

    سوال:

    میں اور میرے بڑے بھائی اپنے والد کی پہلی بیوی سے ہیں۔ میرے والد نے طلاق دے دی، اور والد نے ہماری کفالت کی۔ والد صاحب نے اس کے بعد دوسری شادی کی، جس سے دو اور لڑکے ہیں۔ اڑتیس سال کے بعد میرے والد نے میری سوتیلی ماں کے ساتھ اسپیشل میرج ایکٹ 1954 کے تحت ہمیں اپنی جائیدادسے بے دخل کرنے کے مقصدسے ایک شادی کی۔ اب ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور انھوں نے ایک وصیت کی ہے جس میں اس نے اپنی پوری جائیداد میری سوتیلی ماں، سوتیلے بھائی اور سوتیلی بہن کے نام کی ہے اورہمارے نام کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت ایک مسلمان شریعت کے وراثت کے قوانین کو نظر انداز کرسکتا ہے، اور انڈین سکسیزن ایکٹ 1925 کے تحت عمل کرسکتا ہے، اوروارثوں کے لیے شرعی تقسم کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی پسند کی کوئی بھی وصیت کرسکتا ہے۔ میری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ہماری سوتیلی ماں، سوتیلے بھائی اور سوتیلی بہن کوشریعت کے مطابق ہمیں وراثت کا حق دینے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک فتوی جاری کریں۔ وہ لوگ بہت پکے اور باعمل مسلمان ہیں۔

    جواب نمبر: 7094

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 995=1074/ د

     

    صورت مسئولہ میں مرحوم کے جس وصیت نامہ کا تذکرہ سوال میں کیا گیا ہے اس میں انھوں نے اپنے بعض ورثاء (مثلاً دوسری بیوی، اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد) ہی کے لیے وصیت کی ہے، شرعی قانون سے ورثاء کے حق میں وصیت معتبر نہیں ہوتی، اس لیے مذکور فی السوال وصیت نامہ غیر موٴثر ہوکر وصیت کالعدم ہوجائے گی اور قانون شریعت کی رو سے مرحوم کے ورثا شرعی اپنے اپنے حصص شرعی کے مطابق ترکہ پانے کے مستحق ہیں، جن میں پہلی بیوی کے ذریعہ مرحوم کی پیدا ہونے والی اولاد بھی وراثت کی مستحق ہوگی اگرچہ یہ بیوی بعد میں مطلقہ ہوگئی ہو مطلقہ ہونے کی وجہ سے یہ خود وراثت سے محروم رہے گی مگر اس کے بطن سے مرحوم کی پیدا ہونے والی اولاد مستحق وراثت ہوگی۔ کیونکہ یہ مرحوم کی اولاد میں شامل ہیں۔

     عن أبي أمامة قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول في خطبة عام حجة الوداع إن اللہ قد أعطی کل ذي حق حقہ فلا وصیة لوارث رواہ أبوداوٴد وابن ماجة (مسکاة:۲۶۵)

    اگر آپ تمام ورثاء شرعی کی تفصیل بالوضاحت لکھ دیتے تو سب کا حصہ الگ الگ لکھ دیا جاتا۔

    (الف) پہلی بیوی کی اولاد۔

    (ب) دوسری بیوی کی اولاد۔

    (ج) دوسری بیوی باحیات ہیں یا نہیں؟

    (د) مرحوم کے انتقال کے وقت مرحوم کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک باحیات تھے یا نہیں؟


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند