معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 69114
جواب نمبر: 69114
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1210-1105/N=10/1437 آدمی اپنی زندگی میں اپنی تمام املاک: زمین وجائداد وغیرہ کابلا شرکت غیرے تن تنہا مالک ہوتا ہے، اس کی املاک میں اس کی اولاد یا بیوی وغیرہ کا کوئی مالکانہ حق وحصہ نہیں ہوتا اور اگر آدمی اپنی زندگی میں اپنی کوئی ملکیت: زمین وجائداد وغیرہ کسی اجنبی شخص کو یا کسی معقول وجہ کی بنا پر اپنی کسی اولاد کو ہبہ کرنا چاہے تو وہ ہبہ کرسکتا ہے، اس میں دوسری اولاد اور بیوی وغیرہ کوئی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا اور نہ ہی انھیں بتانے اور ان سے اجازت لینے کی ضرورت ہے ؛ اس لیے صورت مسئولہ میں حاجی عبد الغفار صاحب نے اپنے تمام بیٹوں کو اپنی زمین وجائداد برابر برابر ہبہ کرنے کے ساتھ آئندہ خدمت گذاری وغیرہ کی وجہ سے آپ (: نوشاد احمد ولد حاجی عبد الغفار صاحب مرحوم) کو جو اپنی موروثی زمین ہبہ کی اوراس پر آپ کو قبضہ دخل بھی دیدیا اور آپ ان کی زندگی ہی میں اس زمین پر مکمل طور پر قابض ودخیل ہوگئے تو اگرچہ انہوں نے یہ ساری کاروائی دیگر اولاد کے علم میں لائے بغیر انجام دی ہو تب بھی از روئے شرع یہ زمین والد صاحب کی ملکیت سے نکل کر آپ کی ملکیت میں آگئی اور اب والد صاحب کے انتقال پر یہ زمین ان کے ترکہ میں شامل ہوکر ان کے تمام وارثین کے درمیان تقسیم نہ ہوگی، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کل واحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین (السنن الکبری للبیہقی۷: ۷۹۰) ، اعلم أن أسباب الملک ثلاثة: ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، ۷: ۲۵، ۲۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وتتم الھبة بالقبض الکامل (المصدر السابق، کتاب الھبة ۸: ۴۹۳) ، فالذي یظھر لھذا العبد الضعیف- عفا اللہ عنہ- أن الوالد إن وھب لأحد أبنائہ ھبة أکثر من غیرہ اتفاقاً أو بسبب علمہ أو عملہ أو برہ بالوالدین من غیر أن یقصد بذلک إضرار الآخرین ولا الجور علیھم کان جائزا علی قول الجمہور، وھو محمل آثار الشیخین وعبد الرحمن بن عوف رضي اللہ عنھم (تکملة فتح الملھم، کتاب الھبات ۲: ۶۵، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند